رُکو، وہم و شبہات کا وقت ہے
کہاں جائو گے، رات کا وقت ہے
کسی بھاری پتھر تلے دے کے دل
یہ تخفیفِ جذبات کا وقت ہے
بدلنے پہ اس کے نہ یوں رنج کر
یہ معمولی اوقات کا وقت ہے
یہ کیا دل میں ریزہ رڑَکنے لگا
ابھی تو شروعات کا وقت ہے
گلے خشک، پیشانیاں تر بتر
عمل کے مکافات کا وقت ہے
Related posts
-
سید آل احمد ۔۔۔
سکوں ہوا نہ میسر ہمیں فرار سے بھی ملے ہیں زخم ترے قرب کی بہار سے... -
حفیظ جونپوری ۔۔۔۔ صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
صبح کو آئے ہو نکلے شام کے جاؤ بھی اب تم مرے کس کام کے ہاتھا... -
مرزا غالب ۔۔۔ جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا سویدا تا بلب زنجیر سے دودِ سپند آیا...