زندگی بھر خزاؤں میں رہنا
کس لیے بے وفاؤں میں رہنا
جا رہا ہوں ترے نگر سے، مجھے
اب نہیں ان خداؤں میں رہنا
مار ڈالے گی غم کی ارزانی
کم کرو انتہاؤں میں رہنا
یہ غزل آخری سمجھ کے سنو
اور سیکھو بلاؤں میں رہنا
اچھا لگتا ہے، ہر گھڑی ناصر
یوں کسی کی دعاؤں میں رہنا
Related posts
-
حفیظ جونپوری ۔۔۔ زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے
زمانے کا بھروسا کیا ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ہے یہی ہے رنگ دنیا کا، ابھی... -
میر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ... -
مرزا غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیِٔ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا شوخیِ...