وہ نان سینس ہے اتنا مجھے پتہ نہیں تھا کہ قل پہ اس سے لطیفہ کبھی سنا نہیں تھا جو بند کرنا تھا دریا کو تم نے کوزے میں تو ایک عام سا لوٹا خریدنا نہیں تھا نکال بیٹھا تھا دندان ساز بھولے سے وہ داڑھ جس میں ذرا سا بھی مسئلہ نہیں تھا کھلا یہ بعد میں مجھ پر وہ کھیر تھی دراصل جسے پلاؤ پہ ڈالا تھا، رائتا نہیں تھا جناب شیخ گئے تھے جہاں پہ مٹکے سمیت وہ اک سٹال تھا لسی کا، میکدہ نہیں تھا
Read MoreCategory: طنز و مزاح
عزیز فیصل ۔۔۔ کر دیا قیس نے لیلیٰ سے تقاضا ھٰذا
کر دیا قیس نے لیلیٰ سے تقاضا ھٰذا نام اب کر دو مرے خود ہی پلازا ھٰذا خواب میں آ کے چڑیلیں اسے سمجھاتی ہیں مت ملو اتنا بھی رخسار پہ غازہ ھٰذا اس نے پوچھا کہ مجھے گفٹ میں کیا دو گے تم تھام کر دل کو میں کہنے لگا ھٰذا ھٰذا صاحب خانہ سے کہنے لگا با ذوق ڈکیت قبل از ڈاکہ غزل دیکھیے تازہ ھٰذا
Read Moreعزیز فیصل
دے رہے ہیں اس لیے جنگل میں دھرنا جانور ایک چوہے کو رہائش کے لیے بل چاہیئے
Read Moreراجہ مہدی علی خان
کہتی ہے، ’’چھوڑو قاضی واضی‘‘ میں بھی راضی، تم بھی راضی
Read Moreسید ضمیر جعفری
گر سیاست میں رہیں ایسی ہی خر بازاریاں پارلیمنٹیں خریدی جائیں گی نیلام سے
Read Moreعزیز فیصل
کتنی مزاحیہ ہے یہ بوتل کے جن کی بات آقا اب انقلاب ہے دو چار دن کی بات
Read Moreعزیز فیصل
کودے ہیں اُس کے صحن میں دو چار شیر دل ہم فیس بک کی وال سے آگے نہیں گئے
Read Moreاستاد رامپوری ۔۔۔۔ لوگ کہنے لگے منشی کا خیال اچھا ہے
کوٹھڑی ٹھیک نہ کوٹھی کا خیال اچھا ہے یار جس حال میں رکھے وہی حال اچھا ہے مارچ میں عقد ہوا اور ستمبر میں طلاق کوئی بتلائے برا ہے کہ یہ سال اچھا ہے ناتواں قیس ہے اب کون اسے سمجھائے ایسے حالات میں لیلیٰ کا وصال اچھا ہے بے حجابی نہیں معشوق کی فطرت اے دوست بدر سے میں تو سمجھتا ہوں ہلال اچھا ہے رات لڑنے لگے استاد سے طوفان سخن لوگ کہنے لگے منشی کا خیال اچھا ہے
Read Moreماچس لکھنوی ۔۔۔۔ آپ میں آگ لگانے کا کمال اچھا ہے
جب کہ ماضی سے بہت پست بھی حال اچھا ہے پھر تو مستقبل رنگیں کا خیال اچھا ہے جس کا جو ذوق ہو اس کو وہی آتا ہے پسند میں تو کہتا ہوں کہ دونوں کا خیال اچھا ہے کچھ الیکشن میں تو کچھ نام پہ غالبؔ کے کماؤ اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے چارہ گر کہتے ہیں بس موت کی باقی ہے کسر اور ہر طرح سے بیمار کا حال اچھا ہے نہیں معلوم اگر سانپ کا منتر تو نہ پھنس ہاتھ اس سانپ…
Read Moreرؤف رحیم ۔۔۔ ملک سے سارے غریبوں کو نکال، اچھا ہے
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچھا ہے ہم سے خوش فہموں کا یارو یہ خیال اچھا ہے نہ حرام اچھا ہے یارو نہ حلال اچھا ہے کھا کے پچ جائے جو ہم کو وہی مال اچھا ہے صرف نعروں سے غریبی تو نہیں مٹ سکتی ملک سے سارے غریبوں کو نکال، اچھا ہے ساتھ بیگم کے ملا کرتے ہیں دس بیس ہزار مفت کے مالوں میں سسرال کا مال اچھا ہے نرس کو دیکھ کے آ جاتی ہے منہ پہ رونق وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا…
Read More