اپنا گھر وہ دمے کی مریضہ تھی اور پچھلے ایک مہینے سے شہر کے ایک سرکاری اسپتال میں ایڈمٹ تھی۔ مقامی اسپتال میں علاج معالجہ کے بعد اسے جب کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا بلکہ بیماری نے طول پکڑا تو اسے شہر کے چیسٹ کیئر اسپتال میں ریفر کیا گیا۔ در اصل چیسٹ کیئر اسپتال میں منتقل کرنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ مقامی اسپتال میں چیک اپ کرنے کے بعد چند دوائیاں لکھ کر اسے گھر بھیج دیا جاتا تھا اور گھر پر رات دن کھانس کھانس…
Read MoreTag: افسانے
محمد جمیل اختر ۔۔۔ ڈوبنے والوں کے خواب
ڈوبنے والوں کے خواب اس ملک کے لوگوں کی نیندوں میں دکھ بھرے خوابوں نے بسیرا کر لیا تھا۔۔ ۔۔ لوگ ہر تھوڑی دیر بعد چیخنے چلانے لگ جاتے، گھر میں کوئی نہ کوئی فرد جاگتا رہتا تاکہ ڈر کر جاگ جانے والوں کو بروقت پانی پلا کر حوصلہ دیا جا سکے ورنہ عموماً ڈرے ہوئے لوگ گھر سے نکل کر باہر کی جانب دوڑ لگا دیتے اور ایسے میں کئی ایک حادثات بھی ہو چکے تھے۔۔ ۔ احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود ہر صبح کا اخبار ایسے حادثات…
Read Moreاکرم کنجاہی ۔۔۔ رشیدہ رضویہ
رشیدہ رضویہ رشیدہ رضویہ کو وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی جس کی وہ حق دار تھیں۔ خاص طور پر اُن کا ناول ’’گھر میرا راستے غم کے‘‘ سراہا جانا چاہیے تھا۔ اُن کے ناولوں میں تاریخ اور فکشن ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلنے کے لیے بعض اوقات ایک دوسرے سے دست و گریباں نظر آتے ہیں۔ابتدا میں رشیدہ رضویہ کے افسانوی مجموعے ’’شہر سلگتا ہے‘‘،’’کھنڈر کھنڈر بابل‘‘ (۱۹۵۹ء)کے نام سے سامنے آئے۔ بعد ازاں انہوں نے تین ناول لکھے:َ جن میں’’لڑکی ایک دل کے ویرانے میں‘‘ (۱۹۶۷ء) میں…
Read Moreاکرم کنجاہی ۔۔۔ بانو قدسیہ
بانو قدسیہ بانو قدسیہ ۸ ؍نومبر ۱۹۲۸ ء کے روز فیروز پور مشرقی پنجاب میں پیدا ہوئیں۔ قیام پاکستان کے بعد والدین کے ساتھ لاہور منتقل ہوئیں۔ انہیں زیادہ شہرت اُن کے ناول ’’راجہ گدھ‘‘ سے ملی جو ادبی حلقوں میں زیرِ بحث رہتاہے مگر اُن کے کئی افسانوی مجموعے اشاعت پذیر ہوئے جن میں ناقابلِ ذکر، توجہ کی طالب(افسانوی کلیات)، امر بیل، باز گشت، کچھ اور نہیں، دانت کا دستہ، آتشِ زیرِ پااور دوسرا قدم، دوسرا دروازہ شامل بھی ہیں۔ اُن کا پہلا افسانہ’’وا ماندگیٔ شوق‘‘ ۱۹۵۰ء میں ادبِ…
Read Moreاکرم کنجاہی ۔۔۔ فرخندہ لودھی
فرخندہ لودھی ۲۱؍ مارچ ۱۹۳۷ ء کے روز ساہیوال میں پیدا ہوئیں۔آبا ؤ اجداد کا تعلق ہوشیار پور (مشرقی پنجاب) سے تھا۔پہلا افسانہ گولڈ فلیک ۱۹۶۴ء میں لکھا۔اُن کے افسانوی مجموعے شہر کے لوگ، آرسی، خوابوں کے کھیت اور جب بجا کٹورا کے نام سے اشاعت پذیر ہو چکے ہیں۔انہوں نے جرات اور حوصلہ مندی کے ساتھ زندگی کے حقائق بیان کیے۔ اگرچہ اُن کے اسلوبِ بیان میں علامت کا بھی عمل دخل ہے مگر اُن کی علامتیں کہانی کے ساتھ آگے بڑھتی اور خود اپنے مفاہیم واضح کرتی چلی…
Read Moreرشید امجد ۔۔۔ دشتِ تمنّا
خزانے کا خواب متوسط طبقے کے اکثر لوگوں کی طرح اسے بھی وراثت میں ملا تھا، پرانے گھر میں اس کے باپ نے بھی کئی جگہیں لکھ دی تھیں لیکن خزانہ تو نہ ملا گھر کی خستگی میں اضافہ ہوگیا۔ پھر اس نے یہ خواب دیکھنا چھوڑ دیا جو اسے اپنی ماں سے ورثے میں ملا تھا۔ عمر کے آخری دنوں میں وہ مایوس ہوگیا لیکن نہیں جانتا تھا کہ یہ خواب وراثت میں اس کے بیٹے کو منتقل ہوگیا ہے۔ وراثت میں منتقل ہونے کے لئے کچھ تھا بھی…
Read Moreاکرم کنجاہی ۔۔۔ فہمیدہ اختر
فہمیدہ اختر تقسیمِ ہند سے پہلے موجودہ خیبر پختونخوا میں کوئی بڑا افسانہ نگار پیدا نہیں ہوا۔ ایک نام نصیر الدین نصیر کا سامنے آتا ہے جو ۱۹۳۰ ء تک افسانے لکھتے رہے۔اُن کے افسانے زیادہ تر اصلاحی رنگ میں اور وعظ و نصیحت پر مبنی تھے۔اُن کے افسانے ادبی جرائد میں تو شائع ہوتے رہے مگر کوئی مجموعہ طبع نہیں ہوا۔ فہمیدہ اختر خیبر پختونخوا کی اُن نمایاں افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جن کی کہانیوں کے پلاٹ آزاد فضاؤں میں سانس لینے والے محنت کش اور غریب مگر…
Read Moreفہرست ۔۔۔ ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023
ماہ نامہ بیاض ، لاہور ۔۔۔۔ اگست 2023 ۔۔۔ فہرست
ڈاکٹر نواز کاوش…بہاول پور میں اردو ادب
بہاول پور میں اردو ادب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بہاول پور تاریخی ، تہذیبی اور ثقافتی اعتبار سے اپنا ایک تشخص رکھتا ہے۔ سرسوتی کے مقدس دریا کی وجہ سے اس علاقے کا ویدوں میں کئی جگہ ذکر آیا ہے۔ گنویری والا کا مقام تاریخ کا گم گشتہ باب ہے۔جو بہاول پور کے ریگزار میں آج بھی شاندار ماضی کا گواہ ہے۔ پتن منارا، سوئی وہار اور ایسے کئی دوسرے مراکز بہاول پور کے مختلف علاقوں میں اپنی عظمت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مسلمانوں نے سندھ کے راستے ملتان تک فتوحات کیں…
Read More