سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ نکلتا آ رہا ہے آفتاب آہستہ آہستہ جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ شبِ فرقت کا جاگا ہوں، فرشتو! اب تو سونے دو کبھی فرصت میں کر لینا حساب، آہستہ آہستہ سوالِ وصل پر ان کو عدو کا خوف ہے اتنا دبے ہونٹوں سے دیتے ہیں جواب آہستہ آہستہ وہ بے دردی سے سر کاٹیں امیر اور میں کہوں اُن سے حضور آہستہ آہستہ، جناب آہستہ آہستہ
Read MoreTag: امیر مینائی کی غزلیں
امیر مینائی
آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے
Read Moreامیر مینائی ۔۔۔۔ اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے
اچھے عیسیٰ ہو مریضوں کا خیال اچھا ہے ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے تجھ سے مانگوں میں تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے دیکھ لے بلبل و پروانہ کی بیتابی کو ہجر اچھا نہ حسینوں کا وصال اچھا ہے آ گیا اس کا تصور تو پکارا یہ شوق دل میں جم جائے الٰہی یہ خیال اچھا ہے آنکھیں دکھلاتے ہو جوبن تو دکھاؤ صاحب وہ الگ باندھ کے رکھا ہے جو مال اچھا ہے برق اگر…
Read More