حمدِ باری تعالیٰ ۔۔۔ حامد یزدانی

روشن ہے تجھ سے کُو بہ کُو، اللہَ جلَّ شانہٗ ہے نور تیرا چارسُو، اللہَ جلَّ شانہٗ اے خالقِ کون و مکاں، قدرت کا تیری ہے نشاں یہ کائناتِ رنگ و بُو، اللہَ جلَّ شانہٗ روزِ ازل سے تا ابد، گونجے سدا ’اللہ صمد‘ ہر سمت ہے: ’اللہَ ھُو‘ ، اللہَ جلَّ شانہٗ روح و دل و جاں کے مکیں، تو ہے رگِ جاں سے قریں پھر بھی ہے تیری جستجو، اللہَ جلَّ شانہٗ جاں سُکھ میں ہو دِل چین میں، حاضر ہوں ہم حرَمین میں ہے یہ دعا، یہ…

Read More

حامد یزدانی ۔۔۔ انتظار

انتظار ۔۔۔۔۔۔۔۔ میپل کے پتّوں پہ لکھا پیغام خزاں کا راہ کی پیلی گھاس سے،حامدؔ پُھوٹ رہی ہیں کلیاں آنکھیں ہیں یا گلیاں! خواہش ہے یا رستہ؟ دُور کہیں لے جائے گا جلتی ہتھیلی پر کِھلتا اکتوبر کس کو بھائے گا ! دل میں پھر اپریل کہیں سے لوٹ کے آئے گا

Read More

حامد یزدانی ۔۔۔ یہ جہاں کتنا خوب صورت ہے

یہ جہاں کتنا خوب صورت ہے الاماں! کتنا خوب صورت ہے یہ پرندے ہٹیں تو دیکھوں میں آسماں کتنا خوب صورت ہے کوئی چلتا ہے ساتھ ساتھ مِرے یہ گماں کتنا خوب صورت ہے جھیل ہے، شام ہے، تِراغم ہے سب یہاں کتنا خوب صورت ہے جیسے مونےؔ کا شاہکار کوئی یہ سماں کتنا خوب صورت ہے ڈوبتے ڈوبتے کُھلا ہم پر بادباں کتنا خوب صورت ہے

Read More

حامد یزدانی ۔۔۔ سلام بحضور امامِ عالی مقام ؓ

سلام بحضور امامِ عالی مقام ؓ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرِ دوام یہ تحریر ہے، نہیں ہے کیا؟ غمِ حُسین ابد گِیر ہے، نہیں ہے کیا؟ کہ زخم زخم اِ سی روشنی سے چمکے گا کہ بُوند بُوند میں تنویر ہے، نہیں ہے کیا؟ ترازُو پیاس میں اِک تِیر تھا، نہیں تھا کیا؟ ترازُو پیاس میں اِک تِیر ہے، نہیں ہے کیا؟ جہاں جہاں بھی رِدا ہے عَلم بناتی ہوئی وہاں وہاں مِرا شبیر ہے، نہیں ہے کیا؟ خراجِ اشک ادا خامشی سے کرتے ہیں کہ آہِ ضبط بھی تشہیر ہے، نہیں ہے…

Read More

حامد یزدانی ۔۔۔ دِن آغاز ہُوا

دِن آغاز ہُوا ——- دن آغاز ہُوا اک آوارہ دن آغاز ہُوا اک آوارہ   پت جھڑ جیسا دن آغاز ہُوا لان میں دبکے، میپل کے بوسیدہ پتے اپنی مٹھی کھولتے ہیں جانے، کون زبان میں یہ کیا بولتے ہیں! میں تو اتنا جانتا ہوں عمر کی ڈھلتی دھوپ میں یادوں کی مٹّی بھی سونا لگتی ہے کوئی بتائے کون یہ سونا آنکھ میں بھر کر پہروں آوارہ پھرتا ہے سرمائی کہرے میں چُھپتی جھیلوں پر بیتے کل کے اونچے نیچے ٹِیلوں پر بس اک دن کو ساتھ لئے سانس میں…

Read More

حامد یزدانی ۔۔۔ نہ چھت نہ دیوار تھی فقط در بنا لیے تھے

نہ چھت نہ دیوار تھی فقط در بنا لیے تھے یہ ہم نے کیسے عجیب سے گھر بنا لیے تھے نہ جانے کیوں آسماں بہت یاد آرہا تھا سو کچھ ستارے سے سُونی چھت پربنا لیے تھے وہ جس ورق سے ہمیں بنانا تھی ایک کشتی اُس اک ورق پر کئی سمندر بنا لیے تھے وہ کہہ رہے تھے کہ عشق تقلید چاہتا ہے سو ہم نے بھی سارے اشک، پتھر بنا لیے تھے اب ایک صحرابھی ساتھ رہتا ہے اس کے گھر میں سبھی دریچے ہَوا کے رُخ پر…

Read More