ادا پریوں کی، صورت حور کی، آنکھیں غزالوں کی غرض مانگے کی ہر اک چیز ہے ان حسن والوں کی بجائے رقص مے خانے میں ہے گردش پیالوں کی تکلف بر طرف یہ بزم ہے اللہ والوں کی نشاں جب مٹ گیا تربت کا آئے فاتحہ پڑھنے انہیں کب یاد آئی ہیں وفائیں مرنے والوں کی ہُوا دو گز کفن منعم کو حاصل مال دنیا سے بندھی رکھی ہی آخر رہ گئی گٹھری دوشالوں کی دکھا کر دل مرا پھر آپ ہی عذرِ جفا کرنا ارے کافر! تری اک چال…
Read MoreTag: حفیظ جونپوری کی غزلیں
حفیظ جونپوری ۔۔۔ دل اس لیے ہے دوست کہ دل میں ہے جائے دوست
دل اس لیے ہے دوست کہ دل میں ہے جائے دوست جب یہ نہ ہو بغل میں ہے دشمن بجائے دوست مٹنے کی آرزو ہے اسی رہ گزار میں اتنے مٹے کہ لوگ کہیں خاکِ پائے دوست تقریر کا ہے خاص ادائے بیاں میں لطف سنیے مری زبان سے کچھ ماجرائے دوست سب کچھ ہے اور کچھ نہیں عالم کی کائنات دنیا برائے دوست ہے عقبیٰ برائے دوست
Read Moreحفیظ جونپوری ۔۔۔ شبِ وصال یہ کہتے ہیں وہ سنا کے مجھے
شبِ وصال یہ کہتے ہیں وہ سنا کے مجھے کسی نے لوٹ لیا اپنے گھر بلا کے مجھے پکارتا نہیں کوئی لحد پر آ کے مجھے مرے نصیب بھی کیا سو رہے سلا کے مجھے وہ بولے وصل کے شب آپ میں نہ پا کے مجھے چلے گئے ہیں کہاں اپنے گھر بلا کے مجھے گرا دیا ہے کچھ اس طرح اس نے آنکھوں سے کہ دیکھتا نہیں کوئی نظر اٹھا کے مجھے پری تھی کوئی چھلاوا تھی یا جوانی تھی کہاں یہ ہو گئی چمپت جھلک دکھا کے مجھے…
Read Moreحفیظ جونپوری ۔۔۔ ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئے
ہائے اب کون لگی دل کی بجھانے آئے جن سے امید تھی اور آگ لگانے آئے درد مندوں کی یوں ہی کرتے ہیں ہمدردی لوگ خوب ہنس ہنس کے ہمیں آپ رلانے آئے خط میں لکھتے ہیں کہ فرصت نہیں آنے کی ہمیں اس کا مطلب تو یہ ہے کوئی منانے آئے آنکھ نیچی نہ ہوئی بزمِ عدو میں جا کر یہ ڈھٹائی کہ نظر ہم سے ملانے آئے طعنے بے صبر یوں کے ہائے تشفی کے عوض اور دکھتے ہوئے دل کو وہ دکھانے آئے اور تو سب کے…
Read Moreحفیظ جون پوری ۔۔۔ نہ آ جائے کسی پر دل کسی کا
نہ آ جائے کسی پر دل کسی کا نہ ہو یا رب کوئی مائل کسی کا لگا اک ہاتھ بھی کیا دیکھتا ہے کہیں کرتے ہیں ڈر قاتل کسی کا ادا سے اس نے دو باتیں بنا کر کسی کی جان لے لی، دل کسی کا اٹھا جب دردِ پہلو، دل پکارا نہیں کوئی دمِ مشکل کسی کا ابھی جینا پڑا کچھ دن ہمیں اور ٹلا پھر وعدۂ باطل کسی کا بہت آہستہ چلمن کو اٹھانا ملیں آنکھیں کہ بیٹھا دل کسی کا حفیظ اس طرح بھرتے ہو جو آہیں…
Read Moreحفیظ جونپوری ۔۔۔۔ صبح کو آئے ہو نکلے شام کے
صبح کو آئے ہو نکلے شام کے جاؤ بھی اب تم مرے کس کام کے ہاتھا پائی سے یہی مطلب بھی تھا کوئی منہ چومے کلائی تھام کے تم اگر چاہو تو کچھ مشکل نہیں ڈھنگ سو ہیں نامہ و پیغام کے چھیڑ واعظ ہر گھڑی اچھی نہیں رند بھی ہیں ایک اپنے نام کے قہر ڈھائے گی اسیروں کی تڑپ اور بھی الجھیں گے حلقے دام کے محتسب چن لینے دے اِک اِک مجھے دل کے ٹکڑے ہیں یہ ٹکڑے جام کے لاکھوں دھڑکے ابتدائے عشق میں دھیان ہیں…
Read Moreحفیظ جونپوری ۔۔۔ خود بہ خود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے
خود بہ خود آنکھ بدل کر یہ سوال اچھا ہے روز کب تک کوئی پوچھا کرے حال اچھا ہے ہجر میں عیشِ گزشتہ کا خیال اچھا ہے ہو جھلک جس میں خوشی کی وہ مآل اچھا ہے داغ بہتر ہے وہی ہو جو دلِ عاشق میں جو ر ہے عارضِ خوباں پہ وہ خال اچھا ہے دیکھ ان خاک کے پتلوں کی ادائیں زاہد ان سے کس بات میں حوروں کا جمال اچھا ہے کیجیے اور بھی شکوے کہ مٹے دل کا غبار باتوں باتوں میں نکل جائے‘ ملال اچھا…
Read Moreحفیظ جونپوری ۔۔۔ ہوئے عشق میں امتحاں کیسے کیسے
ہوئے عشق میں امتحاں کیسے کیسے پڑے مرحلے درمیاں کیسے کیسے رہے دل میں وہم و گماں کیسے کیسے سَرا میں ٹِکے کارواں کیسے کیسے گھر اپنا غم و درد سمجھے ہیں دل کو بنے میزباں‘ میہماں کیسے کیسے شبِ ہجر باتیں ہیں دیوار و در سے ملے ہیں مجھے رازداں کیسے کیسے دکھاتا ہے دن رات آنکھوں کو میری سیاہ و سفید آسماں کیسے کیسے جو کعبے سے نکلے‘ جگہ دیر میں کی ملے ان بتوں کو مکاں کیسے کیسے فرشتے بھی گھائل ہیں تیرِ ادا کے نشانہ ہوئے…
Read Moreحفیظ جونپوری ۔۔۔ بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے
بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے نہیں مرتے ہیں تو ایذا نہیں جھیلی جاتی اور مرتے ہیں تو پیماں شکنی ہوتی ہے دن کو اک نور برستا ہے مری تربت پر رات کو چادرِ مہتاب تنی ہوتی ہے زندہ در گور ہم ایسے جو ہیں مرنے والے جیتے جی ان کے گلے میں کفنی ہوتی ہے رت بدلتے ہی بدل جاتی ہے نیت میری جب بہار آتی ہے توبہ شکنی ہوتی ہے غیر کے بس میں تمھیں سن کے یہ کہہ…
Read Moreحفیظ جون پوری
مجھ سا بدمست کوئی رندِ قدح نوش نہیںکب بہار آئی تھی اتنا بھی یہاں ہوش نہیں
Read More