حفیظ جونپوری ۔۔۔ محبت کیا بڑھی ہے وہم باہم بڑھتے جاتے ہیں

محبت کیا بڑھی ہے وہم باہم بڑھتے جاتے ہیں ہم ان کو آزماتے ہیں وہ ہم کو آزماتے ہیں نہ گھٹتی شانِ معشوقی جو آ جاتے عیادت کو برے وقتوں میں اچھے لوگ اکثر کام آتے ہیں جو ہم کہتے نہیں منہ سے تو یہ اپنی مروت ہے چرانا دل کا ظاہر ہے کہ وہ آنکھیں چراتے ہیں سماں اس بزم کا برسوں ہی گزرا ہے نگاہوں سے کب ایسے ویسے جلسے اپنی آنکھوں میں سماتے ہیں کہاں تک امتحاں کب تک محبت آزماؤ گے انہی باتوں سے دل اہلِ…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ کہا یہ کس نے کہ وعدے کا اعتبار نہ تھا

کہا یہ کس نے کہ وعدے کا اعتبار نہ تھا وہ اور بات تھی جس سے مجھے قرار نہ تھا شبِ وصال وہ کس ناز سے یہ کہتے ہیں ہمارے ہجر میں سچ مچ تجھے قرار نہ تھا بگھارتا ہے جو اب شیخ زہد کی باتیں تو کیا یہ عہدِ جوانی میں بادہ خوار نہ تھا فقط تھی ایک خموشی مرے سخن کا جواب نہیں نہیں تجھے کہنا ہزار بار نہ تھا یہ مجھ کو دیکھتے ہی تو نے کیوں چرائی آنکھ نگاہِ لطف کا کیا میں امیدوار نہ تھا…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ جب تک کہ طبیعت سے طبیعت نہیں ملتی

جب تک کہ طبیعت سے طبیعت نہیں ملتی ہوں پیار کی باتیں بھی تو لذت نہیں ملتی آرام گھڑی بھر کسی کروٹ نہیں ملتا راحت کسی پہلو شب فرقت نہیں ملتی جب تک وہ کھنچے بیٹھے ہیں دل ان سے رکا ہے جب تک نہیں ملتے وہ طبیعت نہیں ملتی جیتے ہیں تو ہوتی ہے ان آنکھوں سے ندامت مرتے ہیں تو اس لب سے اجازت نہیں ملتی اس زہد پر نازاں نہ ہو زاہد سے یہ کہہ دو تسبیح پھرانے ہی سے جنت نہیں ملتی کیا ڈھونڈھتے ہیں گور…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ ان کو دل دے کے پشیمانی ہے

ان کو دل دے کے پشیمانی ہے یہ بھی اک طرح کی نادانی ہے وصل سے آج نیا ہے انکار تم نے کب بات مری مانی ہے آپ دیتے ہیں تسلی کس کو ہم نے اب اور ہی کچھ ٹھانی ہے حال بن پوچھے کہے جاتا ہوں اپنے مطلب کی یہ نادانی ہے کس قدر بار ہوں غم خواروں پر کیا سبک میری گراں جانی ہے گھر بلا کر وہ مجھے لوٹتے ہیں یہ نئی طرح کی مہمانی ہے ہم سے وحشت کی نہ لے او مجنوں ہم نے بھی…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت

دل میں ہیں وصل کے ارمان بہت جمع اس گھر میں ہیں مہمان بہت آئے تو دست جنوں زوروں پر چاک کرنے کو گریبان بہت میری جانب سے دل اس کا نہ پھرا دشمنوں نے تو بھرے کان بہت لے کے اک دل غم کونین دیا آپ کے مجھ پہ ہیں احسان بہت ترک الفت کا ہمیں کو ہے غم وہ بھی ہیں دل میں پشیمان بہت دل کے ویرانے کا ہے عالم کچھ اور ہم نے دیکھے ہیں بیابان بہت خاک ہونے کو ہزاروں حسرت خون ہونے کو ہیں…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ عجب زمانے کی گردشیں ہیں خدا ہی بس یاد آ رہا ہے

عجب زمانے کی گردشیں ہیں خدا ہی بس یاد آ رہا ہے نظر نہ جس سے ملاتے تھے ہم وہی اب آنکھیں دکھا رہا ہے بڑھی ہے آپس میں بد گمانی مزہ محبت کا آ رہا ہے ہم اس کے دل کو ٹٹولتے ہیں تو ہم کو وہ آزما رہا ہے گھر اپنا کرتی ہے نا امیدی ہمارے دل میں غضب ہے دیکھیو یہ وہ مکاں ہے کہ جس میں برسوں امیدوں کا جمگھٹا رہا ہے بدل گیا ہے مزاج ان کا میں اپنے اس جذب دل کے صدقے وہی…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ منہ مرا ایک ایک تکتا تھا

منہ مرا ایک ایک تکتا تھا اس کی محفل میں میں تماشا تھا ہم جو تجھ سے پھریں خدا سے پھریں یاد ہے کچھ یہ قول کس کا تھا وصل میں بھی رہا فراق کا غم شام ہی سے سحر کا کھٹکا تھا اپنی آنکھوں کا کچھ قصور نہیں حسن ہی دل فریب اس کا تھا فاتحہ پڑھ رہے تھے وہ جب تک میری تربت پر ایک میلا تھا نامہ بر نامہ جب دیا تو نے کچھ زبانی بھی اس نے پوچھا تھا اب کچھ اس کا بھی اعتبار نہیں…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ شب وصل ہے بحث حجت عبث

شب وصل ہے بحث حجت عبث یہ شکوے عبث یہ شکایت عبث ہوا ان کو کب اعتماد وفا جتاتے رہے ہم محبت عبث یہاں اب تو کچھ اور سامان ہے وہ آتے ہیں بہر عیادت عبث نصیبوں سے اپنے ہے شکوہ ہمیں کریں کیوں کسی کی شکایت عبث مرا حال سن کر وہ ہیں بے قرار کیا کس نے ذکر محبت عبث فلک مر مٹوں سے نہ رکھ یہ غبار مٹا بے کسوں کی نہ تربت عبث سنوں گا تری ہوش میں آ تو لوں ابھی سے ہے ناصح نصیحت…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ لکھ دے عامل کوئی ایسا تعویذ

لکھ دے عامل کوئی ایسا تعویذ یار ہو جائے گلے کا تعویذ کب مسخر یہ حسیں ہوتے ہیں سب یہ بیکار ہے گنڈا تعویذ نہ ہوا یار کا غصہ ٹھنڈا بارہا دھو کے پلایا تعویذ سر سے گیسو کی بلا جاتی ہے لائے تو رد بلا کا تعویذ مر کے بھی دل کی تڑپ اتنی ہے شق ہوا میری لحد کا تعویذ ہر طرح ہوتی ہے مایوسی جب لوگ کرتے ہیں دعا یا تعویذ آرزو خاک میں دشمن کی ملے اس لیے دفن کیا تھا تعویذ ہاتھ سے اپنے جو…

Read More

حفیظ جونپوری ۔۔۔ منہ مرا ایک ایک تکتا تھا

منہ مرا ایک ایک تکتا تھا اس کی محفل میں میں تماشا تھا ہم جو تجھ سے پھریں خدا سے پھریں یاد ہے کچھ یہ قول کس کا تھا وصل میں بھی رہا فراق کا غم شام ہی سے سحر کا کھٹکا تھا اپنی آنکھوں کا کچھ قصور نہیں حسن ہی دل فریب اس کا تھا فاتحہ پڑھ رہے تھے وہ جب تک میری تربت پر ایک میلا تھا نامہ بر نامہ جب دیا تو نے کچھ زبانی بھی اس نے پوچھا تھا اب کچھ اس کا بھی اعتبار نہیں…

Read More