پھول کھلنے کی کوشش سے اکتا گئے آنکھ بھر کر انھیں دیکھتا کون ہے
Read MoreTag: خورشید
پروفیسر صابری نورِ مصطفٰے …. خورشید رضوی: ایک درد مند شاعر
خورشید رضوی۔۔۔ ایک درد مند شاعر ڈاکٹر خورشید رضوی کا شمار اُن معدودے چند نقادوں اور شاعروں میں ہوتا ہے،جن کو تخلیقی و تنقیدی سرمائے کے ساتھ ایک عالم کا درجہ بھی حاصل ہے۔ خورشید رضوی پا کستان کے ممتاز ترین ادیب ہیں اور امسال،یوم پاکستان23 مارچ 2009 ئ کے موقع پر اُن کو صدارتی ستارہ امتیاز سے نوازا گیا ہے۔ڈاکٹر خورشید رضوی عربی/ اُردو لسانیات کے ماہر ہونے کے علاوہ صاحب طرز شاعر بھی ہیں۔ اُن کا پہلا شعری مجموعہ1974ئ میں ٴٴشاخ تنہاٴٴ کے نام سے شایع ہوا،دوسرا1981ئ میں…
Read Moreشناخت (قومی و ملی نظمیں) ۔۔ خورشید رضوی
DOWNLOAD شناخت۔۔ قومی و ملی نظمیں۔۔ خورشید رضوی
Read Moreحامد یزدانی ۔۔۔ نعت رسول پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
نعت ِ رسول ِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔۔۔ خورشید ربانی
یہ خیر خواہیِ اُمت نشانِ رحمت ہے حضورؐ! آپؐ کا اُسوہ جہانِ رحمت ہے کھلا ہے بابِ عطا دوست ہو کہ دشمن ہو یہ شانِ فضل و کرم ہے ، یہ شانِ رحمت ہے وہ آفتابِ قیامت ، یہ دھوپ دنیا کی خوشا کہ سایہء دامانِ جانِ رحمت ہے! سجھائے حرف بھی مضمون بھی وہی بخشے یہ نعت گوئی عطائے بیانِ رحمت ہے خطا کے دشت میں بھٹکے ہوئے مسافر کا ٹھکانہ ہے تو فقط گلستانِ رحمت ہے کلامِ پاک ہے سیرت رسولِ اکرمؐ کی رسولِ پاکؐ کا فرماں بیانِ…
Read Moreخورشید رضوی
وہ آ گیا تو جیسے سبزے میں جان آئی دوڑی رَمق ہَوا کی ساکت صنوبروں میں
Read Moreدل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا ۔۔۔ خورشید رضوی
دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا ایک ساعت کو شب و روز پہ طاری کرنا اب وہ آنکھیں نہیں ملتیں کہ جنھیں آتا تھا خاک سے دل جو اَٹے ہوں، اُنھیں جاری کرنا موت کی ایک علامت ہے، اگر دیکھا جائے روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا تُو کہاں، مرغِ چمن! فکرِ نشیمن میں پڑا کہ ترا کام تو تھا نالہ و زاری کرنا ہوں مَیں وہ لالۂ صحرا کہ ہُوا میرے سپرد دشت میں پیرویٔ بادِ بہاری کرنا اِس سے پہلے کہ یہ سودا مرے سر میں…
Read Moreنیلے پہاڑ ۔۔۔ خورسید رضوی
نیلے پہاڑ ۔۔۔۔۔۔ پھر بُلاتے ہیں مجھے نیلے پہاڑ دُور اُفُق پر آسمانوں سے ملے سبز پیڑوں کی قطاروں سے پَرے پا پیادہ گائوں کی جانب رَواں سادہ دِل اَنجان بڑھیا کی طرح بادلوں کی گٹھڑیاں سر پر رکھے پھر بُلاتے ہیں مجھے نیلے پہاڑ جانے کب قدموں کی زنجیریں کٹیں جانے کب رستے کی دیواریں ہٹیں قفل ٹوٹیں حاضر و موجود کے جانے کب بادل کے رَتھ پر بیٹھ کر بجلیوں کے تازیانے مارتا بارشوں کے پانیوں میں بھیگتا مَیں اڑائوں آندھیوں کے راہوار پھر بُلاتے ہیں مجھے نیلے پہاڑ
Read Moreڈاکٹر خورشید رضوی
پھولوں سے، ستاروں سے، شراروں سے گزارا اِک شعلۂ بے تاب میں ڈھالا مجھے آخر
Read Moreخورشید ربانی ۔۔۔۔۔ رنگ و بوئے زمان و مکاں اور ہے ،یہ جہاں اور ہے
رنگ و بوئے زمان و مکاں اور ہے ،یہ جہاں اور ہے بابِ گل میں ہوا کا بیاں اور ہے ،یہ جہاں اور ہے میں پڑا ہوں کہیں ایک پاتال میں ، حالِ بے حال میں کیا کہوں وہ غمِ رائیگاں اور ہے ، یہ جہاں اور ہے جس کی پلکوں پہ تارے چمکتے نہیں،غم دمکتے نہیں وہ کوئی چشمِ گریہ کناں اور ہے،یہ جہاں اور ہے چاند چمکا اُدھر تو مچلنے لگی ریگِ صحرا اِدھر ریگِ صحرا کا زخمِ گماں اور ہے ،یہ جہاں اور ہے مل گئی ہے…
Read More