پیکرِ نور تہِ خاک چھپا کر لوٹے اک اثاثہ تھا دل و جاں کا لٹا کر لوٹے ایک مینار تھا مسجد کا زمیں بوس ہوا اک نگینہ تھا جو مٹی میں دبا کر لوٹے ایک دن آئے تھے وہ قتل کو شمشیر لیے لاش پھر اپنی ہی کاندھوں پہ اٹھا کر لوٹے اس کے ہر لفظ سے انوار کی ترسیل ہوئی لوگ آنکھوں میں نئے دیپ جلا کر لوٹے خواجۂ کوٹ مٹھن کی تھی سریلی کافی بزمِ دل سوزاں کو آخر وہ رلا کر لوٹے اول اول تو اڑی خوب…
Read More