آج گئے دنوں کے ساتھ ، اپنی گلی میں کیا گئے بند تھا در ، خفا ہوا ، خالی تھا گھر ، برس پڑا Aujourd’hui, avec les jours enfuis, je suis passé par mon ancienne ruelle La porte close m’a blessé, la maison vide… et le ciel s’est mis à pleurer
Read MoreTag: شاہین عباس کا مجموعہ نظم
شاہین عباس
پانی یہاں سے چل دیا ، تجھ کو پکارتا ہوا بیٹھا اب اپنے حوض پر ، پانی کا انتظار کر L’eau s’en est allée d’ici, t’appelant dans son élanReste au bord de ton bassin — attends qu’elle revienne, lentement
Read Moreشاہین عباس
انگلیا ں خاک میں اب پھیر رہے ہیں افسوس بات نمٹا نہ سکے لوح و قلم ہوتے ہوئے Mes doigts se perdent désormais dans la poussière, hélas Même avec la plume et la tablette, les mots n’ont pu sceller le sort
Read Moreشاہین عباس
گلی کی ساری تصویروں میں جیسے جان پڑ جاتی یہ آوازہ ، بُرا کیا تھا ، اگر آواز ہو سکتا L’eau est partie d’ici, t’appelant doucementAssis maintenant au bord de sa fontaine, attends le retour des flots
Read Moreشاہین عباس
شہر کا ماجرا نہ پوچھ، شہر تو یوں ہوا کہ بس! گھر میں کوئی گلی ہوئی، جیسے گلی میں گھر ہوا
Read Moreشاہین عباس
یہ دن اور رات جس جانب اُڑے جاتے ہیں صدیوں سے کہیں رُکتے ، تو میں بھی شاملِ پرواز ہو سکتا
Read Moreشاہین عباس
کوئی تو بات ہے کہ دن آج بھی ختم ہو گیا یوں ہی یہ رات ہے رواں ، پھر بھی رواں یونہی نہیں
Read Moreشاہین عباس
رات اک دہلیز ایسی آ گئی تھی خواب میں رات کچھ کچھ اپنی پیشانی کا اندازہ ہوا
Read Moreشاہین عباس
شہر میں داخلے کی شرط ، جسم نہیں تھا ، روح تھی جسم کا جسم رکھ دیا ،سر سے کہیں اتار کر
Read Moreشاہین عباس
میں سیڑھیاں چڑھتا چلا جاتا ہوں کہ جالوں اوپر کی وہ تنہائی ، وہ اوپر کی اداسی
Read More