دل کو دل سے رہ ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اک دن اس نے فون پہ پوچھا: ’’کیسے ہو؟‘‘ میں ششدر حیران ہوا تھا زندہ کیا امکان ہوا تھا؟ وہ پھر بولی: ’’میں نے پوچھا کیسے ہو کیا ویسے کے ویسے ہو؟‘‘ لفظ کہاں تھے جو دل کے ارمانوں کی تصویر بناتے اور بتاتے تنہائی کے اک گھنٹے میں کتنے سال سما جاتے ہیں روح میں کیسے درد پرانے در آتے ہیں وہ پھر بولی: ’’ کیسے ہو بولو، فیصل !اور بتاؤ دس برسوں کا لمبا عرصہ کیسے گزرا ، کیونکر کاٹا‘‘…
Read MoreTag: عزیز فیصل کی غزل
عزیز فیصل
سوچتا ہوں کہ ساٹھ سال کے بعد عشق پنشن پہ کیوں نہیں جاتا
Read Moreعزیز فیصل … وہ نان سینس ہے اتنا مجھے پتہ نہیں تھا
وہ نان سینس ہے اتنا مجھے پتہ نہیں تھا کہ قل پہ اس سے لطیفہ کبھی سنا نہیں تھا جو بند کرنا تھا دریا کو تم نے کوزے میں تو ایک عام سا لوٹا خریدنا نہیں تھا نکال بیٹھا تھا دندان ساز بھولے سے وہ داڑھ جس میں ذرا سا بھی مسئلہ نہیں تھا کھلا یہ بعد میں مجھ پر وہ کھیر تھی دراصل جسے پلاؤ پہ ڈالا تھا، رائتا نہیں تھا جناب شیخ گئے تھے جہاں پہ مٹکے سمیت وہ اک سٹال تھا لسی کا، میکدہ نہیں تھا
Read Moreعزیز فیصل
دے رہے ہیں اس لیے جنگل میں دھرنا جانور ایک چوہے کو رہائش کے لیے بل چاہیئے
Read Moreعزیز فیصل
کتنی مزاحیہ ہے یہ بوتل کے جن کی بات آقا اب انقلاب ہے دو چار دن کی بات
Read Moreعزیز فیصل … کمال یہ ہے کہ کوئی کمال ہوتا نہیں
کمال یہ ہے کہ کوئی کمال ہوتا نہیں اور اس بساط پہ دل کو ملال ہوتا نہیں مری زبان ہے اتنی گریز حسنِ طلب ہر ایرے غیرے کے آگے سوال ہوتا نہیں زمانہ ساز کچھ ایسے بھی میرے شہر میں ہیں محال کام بھی جن پر محال ہوتا نہیں محبتوں کے کلینڈر میں یہ خرابی ہے کہ ختم ہجر کا کوئی بھی سال ہوتا نہیں حصار ِحسن میں، بندِ ادا میں آئے بغیر کوئی خیال بھی حسنِ خیال ہوتا نہیں اجڑ گئے ہیں کئی پیڑ میری بستی کے بیان مجھ…
Read More