شعر تو سب کہتے ہیں کیا ہے چپ رہنے میں اور مزا ہے کیا پایا دیوان چھپا کر لو ردی کے مول بکا ہے دروازے پر پہرہ دینے تنہائی کا بھوت کھڑا ہے گھر میں کیا آیا کہ مجھ کو دیواروں نے گھیر لیا ہے میں ناحق دن کاٹ رہا ہوں کون یہاں سو سال جیا ہے آگے پیچھے کوئی نہیں ہے کوئی نہیں تو پھر یہ کیا ہے باہر دیکھ چکوں تو دیکھوں اندر کیا ہونے والا ہے ایک غزل اور کہہ لو علوی پھر برسوں تک چپ رہنا…
Read MoreTag: محمد علوی کی شاعری
محمد علوی ۔۔۔ ہر اک جھونکا نکیلا ہو گیا ہے
ہر اک جھونکا نکیلا ہو گیا ہے فضا کا رنگ نیلا ہو گیا ہے ابھی دو چار ہی بوندیں گری ہیں مگر موسم نشیلا ہو گیا ہے کریں کیا دل اسی کو مانگتا ہے یہ سالا بھی ہٹیلا ہو گیا ہے خبر کیا تھی کہ نیکی بانجھ ہوگی بدی کا تو قبیلہ ہو گیا ہے خدا رکھے جوانی آ گئی ہے گنہ بانکا سجیلا ہو گیا ہے نہ جانے چھت پہ کیا دیکھا تھا علوی بچارا چاند پیلا ہو ہے
Read Moreمحمد علوی ۔۔۔ کبھی تو ایسا بھی ہو راہ بھول جاؤں میں
کبھی تو ایسا بھی ہو راہ بھول جاؤں میں نکل کے گھر سے نہ پھر اپنے گھر میں آؤں میں بکھیر دے مجھے چاروں طرف خلاؤں میں کچھ اس طرح سے الگ کر کہ جڑ نہ پاؤں میں یہ جو اکیلے میں پرچھائیاں سی بنتی ہیں بکھر ہی جائیں گی لیکن کسے دکھاؤں میں مرا مکان اگر بیچ میں نہ آئے تو ان اونچے اونچے مکانوں کو پھاند جاؤں میں گواہی دیتا وہی میری بے گناہی کی وہ مر گیا تو اسے اب کہاں سے لاؤں میں یہ زندگی تو…
Read Moreمحمد علوی ۔۔۔ زمیں کہیں بھی نہ تھی چار سو سمندر تھا
زمیں کہیں بھی نہ تھی چار سو سمندر تھا کسے دکھاتے بڑا ہول ناک منظر تھا لڑھک کے میری طرف آ رہا تھا اک پتھر پھر ایک اور پھر اک اور بڑا سا پتھر تھا فصیلیں دل کی گراتا ہوا جو در آیا وہ کوئی اور نہ تھا خواہشوں کا لشکر تھا بلا رہا تھا کوئی چیخ چیخ کر مجھ کو کنویں میں جھانک کے دیکھا تو میں ہی اندر تھا بہت سے ہاتھ اگ آئے تھے میری آنکھوں میں ہر ایک ہاتھ میں اک نوک دار خنجر تھا وہ…
Read Moreمحمد علوی ۔۔۔ خواب میں ایک مکاں دیکھا تھا
خواب میں ایک مکاں دیکھا تھا پھر نہ کھڑکی تھی نہ دروازہ تھا سونے رستے پہ سر شام کوئی گھر کی یادوں میں گھرا بیٹھا تھا لوگ کہتے ہیں کہ مجھ سا تھا کوئی وہ جو بچوں کی طرح رویا تھا رات تھی اور کوئی ساتھ نہ تھا چاند بھی دور کھڑا ہنستا تھا ایک میلا سا لگا تھا دل میں میں اکیلا ہی پھرا کرتا تھا ایسا ہنگامہ نہ تھا جنگل میں شہر میں آئے تو ڈر لگتا تھا غم کے دریا میں تری یادوں کا اک جزیرہ سا…
Read Moreمحمد علوی ۔۔۔ اس شہر میں کہیں پہ ہمارا مکاں بھی ہو
اس شہر میں کہیں پہ ہمارا مکاں بھی ہو بازار ہے تو ہم پہ کبھی مہرباں بھی ہو جاگیں تو آس پاس کنارا دکھائی دے دریا ہو پر سکون، کھلا بادباں بھی ہو اک دوست ایسا ہو کہ مری بات بات کو سچ مانتا ہو اور ذرا بد گماں بھی ہو رستے میں ایک پیڑ ہو تنہا کھڑا ہوا اور اس کی ایک شاخ پہ اک آشیاں بھی ہو اس سے ملے زمانہ ہوا لیکن آج بھی دل سے دعا نکلتی ہے خوش ہو جہاں بھی ہو ہم اس جگہ…
Read Moreمحمد علوی ۔۔۔ آنکھ میں دہشت نہ تھی ہاتھ میں خنجر نہ تھا
آنکھ میں دہشت نہ تھی ہاتھ میں خنجر نہ تھا سامنے دشمن تھا پر دل میں کوئی ڈر نہ تھا اس سے بھی مل کر ہمیں مرنے کی حسرت رہی اس نے بھی جانے دیا وہ بھی ستم گر نہ تھا اک پہاڑی پہ میں بیٹھا رہا دیر تک شوق سے دیکھا کروں ایسا بھی منظر نہ تھا ہم سے جو آگے گئے کتنے مہربان تھے دور تلک راہ میں ایک بھی پتھر نہ تھا رات بہت دیر سے آنکھ لگتی تھی ذرا نیند میں کمرہ نہ تھا خواب میں…
Read Moreمحمد علوی
اندھوں نے بلوایا ہے بھیس بدل کر جانا ہے
Read Moreمحمد علوی ۔۔۔ گلوں کے درمیاں اچھی لگی ہیں
گلوں کے درمیاں اچھی لگی ہیں ہمیں یہ تتلیاں اچھی لگی ہیں گلی میں کوئی گھر اچھا نہیں تھا مگر کچھ کھڑکیاں اچھی لگی ہیں نہا کر بھیگے بالوں کو سکھاتی چھتوں پر لڑکیاں اچھی لگی ہیں حنائی ہاتھ دروازے سے باہر اور اس میں چوڑیاں اچھی لگی ہیں بچھڑتے وقت ایسا بھی ہوا ہے کسی کی سسکیاں اچھی لگی ہیں حسینوں کو لیے بیٹھیں ہیں علوی تبھی تو کرسیاں اچھی لگی ہیں
Read Moreمحمد علوی ۔۔۔ ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں
ہزاروں لاکھوں دلی میں مکاں ہیں مگر پہچاننے والے کہاں ہیں کہیں پر سلسلہ ہے کوٹھیوں کا کہیں گرتے کھنڈر ہیں، نالیاں ہیں کہیں ہنستی چمکتی صورتیں ہیں کہیں مٹتی ہوئی پرچھائیاں ہیں کہیں آواز کے پردے پڑے ہیں کہیں چپ میں کئی سرگوشیاں ہیں قطب صاحب کھڑے ہیں سر جھکائے قلعے پر گدھ بہت ہی شادماں ہیں ارے یہ کون سی سڑکیں ہیں بھائی یہاں تو لڑکیاں ہی لڑکیاں ہیں لکھا ملتا ہے دیواروں پہ اب بھی تو کیا اب بھی وہی بیماریاں ہیں حوالوں پر حوالے دے رہے…
Read More