سوا چار بج چکے تھے لیکن دھوپ میں وہی تمازت تھی جو دوپہر کو بارہ بجے کے قریب تھی۔ اس نے بالکنی میں آکر باہر دیکھا تو اسے ایک لڑکی نظر آئی جو بظاہر دھوپ سے بچنے کے لیے ایک سایہ دار درخت کی چھاؤں میں آلتی پالتی مارے بیٹھی تھی۔ اس کا رنگ گہرا سانولا تھا۔ اتنا سانولا کہ وہ درخت کی چھاؤں کا ایک حصہ معلوم ہوتا تھا۔ سریندر نے جب اس کو دیکھا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ اس کی قربت چاہتا ہے، حالانکہ وہ…
Read MoreTag: منٹو
سعادت حسن منٹو ۔۔۔ الو کا پٹھا
الو کا پٹھا قاسم صبح سات بجے لحاف سے نکلا اور غسل خانے کی طرف چلا۔ راستے میں، یہ اس کو ٹھیک طور پر معلوم نہیں، سونے والے کمرے میں، صحن میں یا غسل خانے کے اندر اس کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ وہ کسی کو ’’اُلو کا پٹھا‘‘ کہے۔ بس صرف ایک بار غصے میں یا طنزیہ انداز میں کسی کو ’’اُلو کا پٹھا‘‘ کہہ دے۔ قاسم کے دل میں اس سے پہلے کئی بار بڑی بڑی انوکھی خواہشیں پیدا ہو چکی تھیں مگر یہ خواہش…
Read Moreاردو ادب کی تشکیلِ جدید ۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر غافر شہزاد
اُردو ادب کی تشکیلِ جدید ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ناصر عباس نیر اورئینٹل کالج پنجاب یو نیورسٹی کے شعبہ اردو کے استاد ہیں۔وہ اردو ادب پڑھاتے ہی نہیں ہیں بل کہ اردو ادب کے موضوعات پر کئی برسوں سے مسلسل لکھ رہے ہیں۔ آج اُن کا نام ان کے ہم عصروں میں احترام سے لیا جاتا ہے۔ وہ قومی اور عالمی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں اور انھوں نے یہ مقام کسی کے کاندھوں پر کھڑا ہو کر یا کسی کا بغل بچہ بن کر حاصل نہیں کیا بل کہ…
Read Moreمنٹو ۔۔۔ مجید امجد
منٹو ۔۔۔۔ مَیں نے اُس کو دیکھا ہے اُجلی اُجلی سڑکوں پر اِک گرد بھری حیرانی میں پھیلتی بھیڑ کے اوندھے اوندھے کٹوروں کی طغیانی میں جب وہ خالی بوتل پھینک کے کہتا ہے : ” دنیا ! تیرا حُسن یہی بدصورتی ہے ۔ " دنیا اُس کو گھورتی ہے شورِ سلاسل بن کر گونجنے لگتا ہے انگاروں بھری آنکھوں میں یہ تند سوال کون ہے یہ جس نے اپنی بہکی بہکی سانسوں کا جال بامِ زماں پر پھینکا ہے؟ کون ہے جو بل کھاتے ضمیروں کے پُر پیچ دھندلکوں…
Read More