اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
Read MoreTag: میر تقی میر
میر تقی میر
ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺭﻭﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﭼﻼ ﮨﻮﮞ ﺟﺴﮯ ﺍﺑﺮ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﺭﻭﺗﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ پھوٹا کیے پیالے لنڈھتا پھرا قرابا
پھوٹا کیے پیالے لنڈھتا پھرا قرابا مستی میں میری تھی یاں اک شور اور شرابا وے دن گئے کہ آنکھیں دریا سی بہتیاں تھیں سوکھا پڑا ہے اب تومدت سے یہ دوآبا ان صحبتوں میں آخر جانیں ہی جاتیاں ہیں نے عشق کو ہے صرفہ نے حسن کومحابا ہر چند ناتواں ہیں پر آگیا جو جی میں دیں گے ملا زمیں سے تیرا فلک قلابا اب شہر ہرطرف سے میدان ہوگیا ہے پھیلا تھا اس طرح کا کاہے کو یاں خرابا دل تفتگی کی اپنی ہجراں میں شرح کیا دوں…
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ کیا مرے آنے پہ تو اے بتِ مغرور گیا
کیا مرے آنے پہ تو اے بتِ مغرور گیا کبھی اس راہ سے نکلا تو تجھے گُھور گیا لے گیا صبح کے نزدیک مجھے خواب اے وائے آنکھ اس وقت کھلی قافلہ جب دور گیا چشمِ خوں بستہ سے کل رات لہو پھر ٹپکا ہم نے جانا تھا کہ بس اب تو یہ ناسور گیا نالۂ میر نہیں رات سے سنتے ہم لوگ کیا ترے کوچے سے اے شوخ وہ رنجور گیا!
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ یادِ ایام کہ یاں ترکِ شکیبائی تھا
یادِ ایام کہ یاں ترکِ شکیبائی تھا ہرگلی شہر کی یاں کوچۂ رسوائی تھا اتنی گزری جو ترے ہجر میں سو اس کے سبب صبر مرحوم عجب مونسِ تنہائی تھا تیرے جلوےکا مگر رُو تھا سحر گلشن میں نرگس اک دیدۂ حیران تماشائی تھا یہی زلفوں کی تری بات تھی یا کاکل کی میر کو خوب کیا سیر تو سودائی تھا
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا
غم اس کو ساری رات سنایا تو کیا ہوا یا روز اُٹھ کے سر کو پھرایا تو کیا ہوا اُن نے تو مجھ کو جھوٹے بھی پوچھا نہ ایک بار میں نے اُسے ہزار جتایا تو کیا ہوا مت رنجہ کر کسی کو کہ اپنے تو اعتقاد دل ڈھائے کر جو کعبہ بنایا تو کیا ہوا میں صیدِ ناتواں بھی تجھے کیا کروں گا یاد ظالم اک اور تیر لگایا تو کیا ہوا کیا کیا دعائیں مانگی ہیں خلوت میں شیخ یوں ظاہر جہاں سے ہاتھ اُٹھایا تو کیا ہوا…
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا
ایسا ترا رہ گزر نہ ہوگا ہر گام پہ جس میں سر نہ ہوگا کیا اُن نے نشے میں مجھ کومارا اتنا بھی تو بے خبر نہ ہوگا دشنوں سے کسی کا اتنا ظالم ٹکڑے ٹکڑے جگر نہ ہوگا اب دل کے تئیں دیا تو سمجھا محنت زدوں کے جگر نہ ہوگا (ق) دنیا کی نہ کر تو خواست گاری اس سے کبھو بہرہ ور نہ ہوگا آ خانہ خرابی اپنی مت کر قحبہ ہے یہ اس سے گھر نہ ہوگا پھر نوحہ گری کہاں جہاں میں ماتم زدہ میر…
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ اُس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا
اُس کا خرام دیکھ کے جایا نہ جائے گا اے کبک پھر بحال بھی آیا نہ جائے گا ہم رہروانِ راہِ فنا ہیں بہ رنگِ عمر جاویں گے ایسے کھوج بھی پایا نہ جائے گا پھوڑا سا ساری رات جو پکتا رہے گا دل تو صبح تک تو ہاتھ لگایا نہ جائے گا اپنے شہیدِ ناز سے بس ہاتھ اُٹھا کہ پھر دیوانِ حشر میں اُسے لایا نہ جائے گا اب دیکھ لے کہ سینہ بھی تازہ ہوا ہے چاک پھر ہم سے اپنا حال دکھایا نہ جائے گا ہم…
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ اپنے ہوتے تو با عتاب رہا
اپنے ہوتے تو با عتاب رہا بے دماغی سے با خطاب رہا ہو کے بے پردہ ملتفت بھی ہوا ناکسی سے ہمیں حجاب رہا نہ اٹھا لطف کچھ جوانی کا کم بہت موسمِ شباب رہا کارواں ہائے صبح ہوتے گیا میں ستم دیدہ محوِ خواب رہا ہجر میں جی ڈھہا گرے ہی رہے ضعف سے حالِ دل خراب رہا گھر سے آئے گلی میں سو باری یار بن دیر اضطراب رہا ہم سے سلجھے نہ اس کے الجھے بال جان کو اپنی پیچ و تاب رہا پردے میں کام یاں…
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ ہے خیال تنک ہم بھی رُوسیاہوں کا
رہے خیال تنک ہم بھی رُوسیاہوں کا لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا نہیں ستارے یہ سوراخ پڑگئے ہیں تمام فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا گلی میں اُس کی پھٹے کپڑوں پر مرے مت جا لباسِ فقر ہے واں فخر بادشاہوں کا تمام زلف کے کوچے ہیں مارِ پیچ اُس کی تجھی کو آوے دِلا! چلنا ایسی راہوں کا کہاں سے تہ کریں پیدا یہ ناظمانِ حال کہ کوچ بافی ہی ہے کام ان جلاہوں کا حساب کا ہے کا روزِ شمار میں مجھ سے شمار…
Read More