اردو میں نعت گوئی کی روایت … احمد عمار صدیقی

اردو میں نعت گوئی کی روایت
معنی و مفہوم
نعت کو عام طور پر دیگر اصنافِ سخن (مثلاً حمد، منقبت اور مدح وغیرہ) کے ہم معنی خیال کیا جاتا ہے۔ جہاں لغوی طور پر ان کے مطالب میں اختلاف پایا جاتا ہے، وہیں نعت کو (ماسوائے حمد) ان سب اصناف پر برتری بھی حاصل ہے۔
نعت کا مقصد نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعریف کے ذریعے سے اﷲ کی رضا حاصل کرنا اور اشاعتِ دین کا کام لینا ہے۔ جیسا کہ اِرشاد شاکر اعوان اپنی کتاب ’’عہدِ رسالت میں نعت‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’نعت کا مقصودِ اصلی ثنائے رسولؐ کے حوالے سے محاسنِ دین کا بیان (نشر و اشاعت) اور تقرب الٰہی کا حصول ہے‘‘۔ (ص23)
نعت گوئی کا آغاز آسمانی کتابوں سے ہوتا ہے۔ تورات، زبور، انجیل اور قرآن سب میں اﷲ کے حبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کی تعریف آئی ہے۔ عہد رسالت میں بہت سے صحابہؓ نے نعت گوئی کی، جن میں سرفہرست سیدنا حسّان بن ثابت رضی اﷲ تعالیٰ عنہٗ تھے۔
محسن ؔ کاکوروی
محسنؔ کاکوروی موضع کاکوری، ضلع لکھنؤ، صوبہ اُتّرپردیش میں 1827ء میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے بچپن ہی سے شعر گوئی کا آغاز کیا اور اپنے رشتے کے ماموں مولوی ہادی علی اشکؔ کی شاگردی میں آگئے۔ محسنؔ نے اپنی شعری زندگی کا آغاز غزل سے کیا۔ بعد میں اُنھوں نے غزل گوئی ترک کردی اور اپنے آپ کو صرف اور صرف ثنائے رسولِ مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے وقف کردیا۔ وہ خود فرماتے ہیں:
سخن کو رُتبہ ملا ہے مِری زباں کے لیے
زباں ملی ہے مجھے نعت کے بیاں کے لیے
ازل سے جب ہوئیں تقسیم نعمتیں محسنؔ
کلامِ نعتیہ رکھا مِری زباں کے لیے
محسنؔ نے جس بھی صنفِ سخن میں نعت کہی، خوب کہی۔ اِس بات کو مشتاق احمد صدیقی نے یوں لکھا ہے:
محسنؔ کاکوروی کے قصیدے، مسدسیں، مخمسیں اور مثنویاں نعتیہ ادب کے ایسے فن پارے ہیں کہ جن کی مثال ملنی مشکل ہے‘‘۔ (مضمون ’’محسن کاکوروی‘‘ مشمولہ اُردو (لازمی) کورس، انٹرمیڈیٹ (بُک ون)۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی۔ ص: 197)
محسنؔ کاکوروی کا ایک کارنامہ یہ ہے کہ اُنھوں نے نعت میں تشبیہات اور استعارات کے لیے وہ اصطلاحات استعمال کیں جو ہندوؤں کے ہاں مقدس تھیں۔ مثال کے طور پر اُن کے مشہور نعتیہ قصیدے ’’مدیح المرسلین‘‘ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کا مطلع ملاحظہ ہو:
سمتِ کاشی سے چلا، جانبِ مَتُھرا بادل
برق کے کاندھے پہ لاتی ہے ہوا گنگا جل
محسنؔ نعت گوئی میں جدت لانا چاہتے تھے۔اُن کی شاعری کا انداز اُن کے عہد کی شاعری سے خاصا مختلف ہے۔ محسنؔ کے نعتیہ کلام میں سلاست، روانی اور بے ساختگی اِس نوعیت کی ہے کہ عقلِ انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔ اُن کی شاعری میں علمی تلمیحات، قرآنی آیات، رعایاتِ لفظی، صنائع بدائع، تشبیہات و استعارات اور معنی آفرینی پائی جاتی ہے۔ محسنؔ کی شاعری زبان دانی کی عمدہ مثال ہے۔ اُن کے ہاں عربی، فارسی اور ہندی کا بہترین امتزاج بہ کثرت موجود ہے۔ مثال کے طور پر محسنؔ کے تین اشعار ملاحظہ ہوں:
خبر اُڑتی ہوئی آئی ہے مہا بن میں ابھی
کہ چلے آتے ہیں تیرتھ کو ہوا پر بادل
جانبِ قبلہ ہوئی ہے یورشِ ابرِ سیاہ
کہیں پھر کعبے پہ قبضہ نہ کریں لات و ہبل
شاہدِ فکر ہے مکھڑے سے اُٹھائے گھونگھٹ
چشمِ کافر میں لگائے ہوئے کافر کاجل
اُردو کے اُن شعراء میں، جنھوں نے اپنے آپ کو صرف اور صرف نعت گوئی کے لیے وقف کردیا، محسنؔ کاکوروی اوّلین شاعر ہیں۔
مولانا الطاف حسین حالیؔ
1857ء میں ہندوستان میں مسلمانوں کے اقتدار کے خاتمے کے بعد ہمارے علمائے دین، ادیبوں اوردانشوروں نے مذہبی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کی ضرورت کو محسوس کیا اور اپنے اپنے محاذ پر اعلانِ جہاد کردیا۔ سرسید احمدخان کی تحریک، اہلِ نظر کی ایسی ہی کاوش وجستجو کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ شمس العلماء مولانا الطاف حسین حالیؔ سرسید کی تحریک کے ایک اہم کارکن تھے۔ اُنھوںنے اپنی شہرۂ آفاق مسدس، غزلوں اور نظموں کے علاوہ متعدد نعتیں کہیں۔ حالیؔ کی نعت گوئی کے متعلق بابائے اُردو مولوی عبدالحق کا کہنا ہے کہ حالیؔ کے گلے سے:
’’نعت گوئی کی لَے جب چھڑے تو منہ کے بول زمزمے بن کر نکلنے لگیں‘‘۔ (’’تقریب‘‘ ازمولوی عبدالحق، مشمولہ مسدس حالیؔ، شائع کردہ: فضلی سنز، ص: 33)
مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:
ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا
دُعائے خلیل اور نویدِ مسیحا
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
مرادیں غریبوں کی بر لانے والا
مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
حالیؔ کی مشہور ترین نعت ان کی ایک طویل نظم ’’مدوجزرِ اسلام‘‘ المعروف بہ ’’مسدسِ حالیؔ‘‘ میں شامل ہے۔ اِس نظم کے متعلق علامہ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں:
’’سادگی اور بے تکلفی کے باوجود مسدس کی نظم میں ایسی سلاست، روانی اور برجستگی ہے کہ معلوم ہوتا ہے کوئی صاف شفاف نہر کسی ہموار ترائی میں آہستگی سے بہتی چلی جارہی ہے۔ نہ کہیں رکاوٹ ہے، نہ لفظوں میں گرانی ہے، نہ قافیے کی تنگی ہے۔ زبان میں گھلاوٹ، بیان میں حلاوت، لفظوں میں فصاحت اور ترکیبوں میں لطافت ہے۔ ہماری زبان میں سہل ممتنع کی یہ بہترین مثال ہے‘‘۔ (’’مسدسِ حالیؔ‘‘ از سید سلیمان ندوی، مشمولہ مسدسِ حالیؔ،شائع کردہ: فضلی سنز۔ص:16)
مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:
خطا کار سے درگزر کرنے والا
بد اندیش کے دل میں گھر کرنے والا
مفاسد کو زیر و زبر کرنے والا
قبائل کو شیر و شکر کرنے والا
اُتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور اِک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا
مَسِ خام کو جس نے کندن بنایا
کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا
عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا
پلٹ دی بس اِک آن میں اُس کی کایا
رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا
اِدھر سے اُدھر پھر گیا رُخ ہوا کا
مگر حالیؔکے دیگر نعتیہ کلام میں ادق عربی اور فارسی الفاظ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ مثال کے طورپر چند اشعار ملاحظہ ہوں:
یا مَلکیُّ الصفات یا بَشرِیُّ القویٰ
فِیکَ دلیلٌ عَلیٰ اِنَّکَ خیرالوریٰ
تجھ سے ہوئی زندہ خلق جیسے کہ باراں سے خاک
خَلَّقکُ خَصبُ الزّمان بعثک محْیا الوریٰ
شان رسالت کی تھی تیری جبیں سے عیاں
گود سے دایہ ابھی کر نہ چکی تھی جدا
تو نے تحمل کیا قوم کا غلبہ تھا جب
جب ہوئی مغلوب قوم تو نے تَرحُّم کیا
تجھ پہ صلوٰۃ و سلام ربِّ سماوات سے
روز و شب و صبح و شام قدرِ رمال و حصیٰ
حفیظ تائبؔ
چودہویں صدی ہجری میں جن نعت نگاروں نے اُردو نعت کو نئے انداز سے پیش کیا اُن میں حفیظ تائبؔ کا نام سرفہرست ہے۔ اُنھوں نے نعت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ محبت کے اظہار کے ساتھ ساتھ آپؐ کی تعلیمات کو بھی نعت کا موضوع بنایا، مثال کے طور پر تائبؔ کے تین اشعار ملاحظہ ہوں:
اساسِ عدل و مساوات، دینِ سرورِؐ دیں
تمام نوعِ بشر ہے رہینِ سرورِؐ دیں
سکھائے سرورِؐ دیں نے معارفِ ہستی
ہیں سب فلاسفہ بھی خوشہ چینِ سرورِؐ دیں
جہاں میں وجہِ شرف ہے اگر تو حسنِ عمل
اُصولِ حق، سخن دل نشینِ سرورِؐ دیں
احمد ندیم قاسمی، تائبؔ کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’حفیظ تائبؔ نے صنف ِ نعت پر بعینہٖ وہی احسان کیا ہے جو غالبؔ، اقبالؔ اور آج کے بعض نمایاں شعراء نے صنفِ غزل پر کیا ہے‘‘۔ (’’ارمغانِ حرم حفیظ تائبؔ کی نعت نگاری‘‘ از احمد ندیم قاسمی، مشمولہ: ’’وسلّموا تسلیما‘‘از حفیظ تائبؔ۔ ص11)
حفیظ تائبؔ نے تقریباً ہر شعری صنفِ سخن پر نعت کے لیے طبع آزمائی کی۔ اُنھوں نے نہ صرف آزاد نظموں میں نعت گوئی کی، بلکہ پابند نظموں اور نعتیہ غزلوں میں بھی نئی نئی بحریں اختیار کیں۔ اُنھوں نے ’’نعتیہ سانیٹ‘‘ بھی کہی۔ احمد ندیم قاسمی نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
’’حفیظ تائبؔ کے ہاں جذبے کا اتنا وفور ہے کہ اُنھوں نے شاعری کی ہر صنف کو اس وفور کے اظہار کے لیے آزمایا ہے اور ان تجربات کے حیرت انگیز نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اصل میں ان کے ہاں نعتیہ موضوعات کا اس قدرتنوع ہے کہ انھیں ’’وسعتِ بیان‘‘ کی ضرورت محسوس ہوئی اور وہ محض ایک ہیئت کی ’’تنگنا‘‘سے نکل گئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ اصنافِ اظہار میں اس پھیلاؤ نے ان کے متنوع موضوعات کو بوقلموں بنادیا ہے‘‘۔ (’’ارمغانِ حرم حفیظ تائبؔ کی نعت نگاری‘‘ از احمد ندیم قاسمی، مشمولہ: ’’وسلّموا تسلیما‘‘از حفیظ تائبؔ۔ ص12)
اہلِ نقد و نظر نے حفیظ تائبؔ کو ’’پاکستان کا سب سے بڑا نعت گو‘‘ قرار دیا ہے (حافظ محمد افضل فقیر، دیباچہ ’’وسلّموا تسلیما‘‘)۔ اس میں کوئی مبالغہ نظر نہیں آتا۔ تائبؔ نے اپنی نعتوں کے اکثر مضامین قرآن و حدیث سے اخذکیے ہیں۔ قرآن سے اکتساب کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے:
’’وہ مصطفیؐ ہیں
وہ مجتبیٰؐ ہیں
رؤف بھی ہیں، رحیم بھی ہیں
بشیر بھی ہیں، نذیر بھی ہیں
وہی ہیں یاسیں
وہی ہیں طٰہٰ
چراغِ روشن
نفوس کے ہیں وہی مزکی
کتابِ حکمت پڑھانے والے
بلانے والے خدا کی جانب
نکالنے والے ظلمتوں سے
وہ حق کے حامل
وہ حق کے مرکز
اُنھی کو حق نے بناکے بھیجا
جہاں کی رحمت
اُنھی پہ دیں ہوگیا مکمل
ہوئی تمام اُن پہ حق کی نعمت
سلام اُس نازشِ زمیں پر‘‘
(خاتم الانبیائ۔از مجموعۂ نعت:’’وسلّمو۱ تسلیما‘‘)
حدیث سے اکتساب کی مثال دیکھیے:
’’بقولِ جابرؓ، کہا یہ پیغمبرؐ خدا نے
کہ نور میرا ہی سب سے پہلے
خدائے قدوس نے بنایا
……………
کوئی بھی شے اُس گھڑی نہیں تھی
نہ لوحِ محفوظ تھی نہ کرسی
نہ عرش تھا اور نہ بحروبر تھے
نہ تھی بہشتِ بریں نہ دوزخ
نہ تھے فرشتے نہ جن و آدم
وہ نورِ رحمت ظہور سے پہلے ضوفشاں تھا
سلام اُس نورِ اوّلیں پر
(نورِ اوّلیں۔ازمجموعۂ نعت: ’’وسلّموا تسلیما‘‘)

Related posts

Leave a Comment