رات آئی ہے، بلاؤں سے رہائی دے گی
اب نہ ديوار، نہ زنجير دکھائی دے گی
وقت گزرا ہے پہ موسم نہيں بدلا، يارو!
ايسی گردش ہے، زميں خود بھی دہائی دے گی
يہ دھندلکا سا جو ہے اس کو غنيمت جانو
ديکھنا پھر کوئی صورت نہ سجھائی دے گی
دل جو ٹوٹے گا تو اک طرفہ تماشہ ہوگا
کتنے آئينوں ميں يہ شکل دکھائی دے گی
ساتھ کے گھر ميں بڑا شور بپا ہے انور
کوئی آئے گا تو دستک نہ سنائی دے گی