خاور اعجاز ۔۔۔ موجِ دریا سے ضروری تھا کہ لڑتے رہتے

موجِ دریا سے ضروری تھا کہ لڑتے رہتے
گلے پڑتے تھے جو گرداب تو پڑتے رہتے

شعر کہنا کوئی آساں نہیں میرے نقّاد ! 
ہم تِری طرح سے پنسل نہیں گھڑتے رہتے

ایک دن مان لی اُس کی سو بہت خوار ہُوئے
کام بن جاتے اگر روز بگڑتے رہتے

اور بھی رہتا اگر تن پہ لباسِ ہستی
داغ دھبے مِری پوشاک  پہ پڑتے رہتے

آدھا آدھا کیا جاگیر کو تب  چین ہُوا
کب تلک بھائی سے بیکار جھگڑتے رہتے

Related posts

Leave a Comment