شہاب اللہ شہاب ۔۔۔ گُر محبت میں مجھے آتا نہیں تدبیر کا

گُر محبت میں مجھے آتا نہیں تدبیر کا
اس لئے محبوس ہوں میں حلقۂ زنجیر کا

روز ہی ملنے کو کہتے ہو مگر آتے نہیں
سو یقیں مجھ کو نہیں ہے آپ کی تحریر کا

جو تجھے منظور ہے، مجھ کو وہی منظور ہے
ڈر مجھے کوئی نہیں ہے پیار کی تعزیر کا

لاکھ کوشش کر کے بھی خوش کر نہیں پایا ذرا
کچھ دوا درماں نہیں ہے اس دلِ دَلگیر کا

خواب دیکھے تھے سُہانے ساتھ جینے کے مگر
تو نہ ہو تو کیا سُہانے خواب کی تعبیر کا

جو ترے خط کو کبھی مر کر بھی پڑھتا ہی نہیں
آسرا کاہے کو ہے اُس کی تجھے تصویر کا

اُس کی ہاں میں ہاں ملانا بھی سزا ٹھہری کڑی
اب شہاب اُس کو ستم ہی کیا تری تقدیر کا

Related posts

Leave a Comment