مسعود احمد ۔۔۔ بچھڑنے والوں کا اتنا تو غم کیا جاے

بچھڑنے والوں کا اتنا تو غم کیا جاے کہ انکا ذکر زمانے سے کم کیا جاے ہوا کی بات اگر مان بھی لیں فرض محال تو کیا چراغ اندھیرے میں ضم کیا جائے وہ جن درختوں پہ اب گھونسلے نہیں بنتے اب ان درختوں کی شاخوں پہ دم کیا جاے ہمارے دشت میں دریا کا کوئی کام نہیں لہو پسینے سے مٹی کو نم کیا جائے امانتوں میں خیانت کا ارتکاب نہ ہو مرے سپرد یہ رنج و الم کیا جائے ہمارا جرم کہ ہم چوریاں پکڑتے ہیں ہمارے ہاتھوں…

Read More

مسعود احمد ۔۔۔ پیڑوں کی دیکھ بھال پرندوں کو سونپ دی

پیڑوں کی دیکھ بھال پرندوں کو سونپ دی مردہ دلوں نے زندگی زندوں کو سونپ دی دنیا و دیں تو فہم و فراست کے ساتھ تھے یہ دل کی باگ ڈور تھی رندوں کو سونپ دی جنگل کا انصرام ہے شہروں کی طرز پر انسانیت یہ کس نے درندوں کو سونپ دی ہم نے ہزار مسئلے ترکے میں چھوڑ کر آئیندگاں کی بات آئیندوں کو سونپ دی پانی ملا رہے ہیں وہ اپنے ہی دودھ میں یہ ذمہ داری ہم نے چرندوں کو سونپ دی سانسوں پہ بھی سوال اٹھیں…

Read More