سید ضیا حسین ۔۔۔ ایک لڑکی

بین الاقوامی تعلقات میں گریجویشن کرتی ہوئی لڑکییہ تو جانتی ہو گیکہ اکثر دوستیاں دائمی نہیں ہوتیںیہ بنتی ہیں، بگڑتی ہیںبس مفادات کی خاطریہ دوستی تب تک ہی رہتی ہےجب تک کسی کو حاجت رہتی ہے کسی کیورنہ کچھ نہیںدوستی کے یہ بندھنپل میں ٹوٹ جاتے ہیںدوست بن جاتے ہیں دشمناور دشمن دوست بنتے ہیں یہ لڑکییہ بھی جانتی ہو گیکہ چھوٹوں کی تو کوئی مرضی نہیں ہوتیانھیں توچاہنا ہے بس وہ ہیجو چاہتے ہیں بڑے اُن کےانھیں تو کرنا ہے بس وہ ہیجو کہتے ہیں بڑے ان کےانھیں تو…

Read More

سید ضیا حسین ۔۔۔ اُس کی خفگی بھی تعلق کی علامت نکلی

اُس کی خفگی بھی تعلق کی علامت نکلی میں نے نفرت جسے سمجھا تھا، محبت نکلی اُسکی مُسکان سے خوش ہوتی ہے کتنی خلقت اُسکے مُسکانے کی عادت بھی عبادت نکلی وہ جو تھی پہلی ملاقات میں بیٹھی گُم صم وہ تو بس چار دنوں میں ہی قیامت نکلی میرا تُو یار بنا بھی تو اُسی کی خاطر جس کو سمجھا تھا قرابت، وہ رقابت نکلی نام دیتے ہیں جسے وصل کا اکثر شاعر وہ تو فطرت کی عطا کردہ جبلت نکلی گر خدا ہوتا تو مل جاتی معافی مجھ…

Read More

عقیدت ۔۔۔ فرحت عباس

توفیق ایسی بخش مکرّر ، مرے خدا ہو مدحتِ حضورؐ زباں پر ، مرے خدا ایسا مجھے بنا دے سخن ور، مرے خدا حدِ ادب سے جاؤں نہ باہر ،مرے خدا تخلیق ِ دو جہاں کا سبب جن کی ذات ِ پاکؐ ان کے لیے درودِ معطر، مرے خدا سردارِ کائناتؐ ہیں میرے حضور ِ پاکؐ تجھ سے ہی اُنؐ کا نور منوّر، مرے خدا حق کی حدیث، صاحب قرآں کے واسطے میری زباں میں اور اثر کر، مرے خدا توصیفِ مصطفٰےؐ کا جو منصب مجھے ملا کیسا دیا مقامِ…

Read More

فرحت عباس ۔۔۔ چراغ تعبیرِ معتبر

ابھی فضاؤں میں خواہشوں کے مسرتوں کے حسین بادل لطیف فردا کی کوکھ میں تھے ابھی بہاروں کے رنگ سارے چمن میں پنہاں نئی رُتوں کے پیامبر تھے ابھی پرندے سفرکی جانب اُڑے نہیں تھے ابھی سمندر محبتّوں کے بھی پُر سکوں تھے ابھی خیالوں کی دلکشی میں وہ خواب تعبیر بن رہے تھے کہ جن کی تعبیر مُعتبرتھی نئے ستاروں کی رہگذر تھی ابھی وفاؤں کے گلستاں میں خزاں کا کوئی نشاں نہیں تھا تو پھر یہ کس نے سکوں کے آنگن میں تیرگی کا غُبار چھوڑا اُداسیوں کا…

Read More

فرحت عباس ۔۔۔ ہماری نسل کئی قتل کرنے والی ہے

ہماری نسل کئی قتل کرنے والی ہے نفاذِ عرصۂ ماقبل کرنے والی ہے سجا کے رکھے گی زندان میں مجھے خلقت یہ مجھ سے آج عجب عدل کرنے والی ہے یہ اور بات خطا کار ہیں ترے بندے پہ تیری ذات بڑا فضل کرنے والی ہے تو کیا یہ جھوک سکوں امن کا نشاں ہو گی؟ تو کیا یہ راج سبھا عدل کرنے والی ہے؟ کوئی بھی کام انوکھا بھلا کرے کیسے ؟ یہ ساری خلق تو بس نقل کرنے والی ہے ہجومِ عشق و محبت کی کھینچا تانی اب…

Read More

عاطف جاوید عاطف ۔۔۔ سگنل پر چالیس وہ لمحے برسوں ہم کو یاد رہے

سگنل پر چالیس وہ لمحے برسوں ہم کو یاد رہے گجرے والا بولا تھا جب، صاحب !! جوڑی شاد رہے چوراہے پر یاد ہے کیسے دیتا تھا مجذوب دعا تیرے گھر کا چولہا چوکھا صدیوں تک آباد رہے عقل و دانش، فہم ، فراست، ایک نظر میں ڈھیر ہوئے اُن کی پلکیں اُٹھنے تک بس، ہم اُن کے استاد رہے شب کی ہر سلوٹ سے پوچھو کیسے جاگے چاند اور میں سُونی رات کے اک بستر پر کیسے دو افراد رہے پریم نگر میں گارے مٹی سے بھی گھر بن…

Read More

مصطفی مغل ۔۔۔ نین جن کے شراب کی صورت

نین جن کے شراب کی صورت ہونٹ اُن کے گلاب کی صورت تو دھمکتا ہے ماہ و انجم میں مثلِ لالہ شباب کی صورت تیرے ہجر و فراق کے لمحے مجھ پہ گزرے عذاب کی صورت میری چاہت کے دل سمندر میں تو ہے نایاب خواب کی صورت تم محبت کی ہو غزل جاناں کیوں نہ چھیڑوں رباب کی صورت

Read More

خالق آرزو ۔۔۔ ’’مگر پھر لوٹ جاتے ہیں‘‘

کتنے انمول ہیں وہ آنسو جو آنکھوں سے نہیں بہتے دکھائی جو نہیں دیتے وہ آنسو جھیل کی سی گہری آنکھوں سے باہر نکلنے کو جب بہت بے چین ہوتے ہیں تو کوئی احساس ماضی کا انھیں آنکھوں کی سرحد پر یہ کہہ کر روک لیتا ہے ابھی تم نے نہیں بہنا وہ کہہ گیا تھا پہاڑوں پر برف پگھلنے تک میرا انتظار کر لینا بہت ہی خوبصورت ہیں وہ آنسو جو پانی کے کٹوروں کی طرح سے جھلملاتے ہیں وہ آنکھوں تک تو آتے ہیں مگر پھر لوٹ جاتے…

Read More

نائیلہ راٹھور ۔۔۔ وفا شعار تھے ہم نے وفا کو عام کیا

وفا شعار تھے ہم نے وفا کو عام کیا کہ بے وفائوں کا بھی دل سے احترام کیا تمہاری چاہ نے کتنا عجیب کام کیا مجھی سے چھین کے مجھ کو بس اپنے نام کیا تمام عمر یونہی پرسکون بیت گئی نہ خود ہوئے ہیں نہ ہم نے کسی کو رام کیا لکھا جو لفظ بھی دل سے ترے لیے ہی لکھا کہ تیرا ذکر ہی بس میں نے صبح و شام کیا نہ جانے شہر میں کب آئے وہ چلے بھی گئے عبث ہی ہم نے یہ اس درجہ…

Read More

نائیلہ راٹھور ۔۔۔ ماسک

مجھے بچپن میں جگنو پکڑنا بہت اچھالگتا تھا سرِ شام گھر سے نکل جاتی جلتی بجھتی قمقموں جیسی روشنیوں والے ٹمٹماتے جگنو مٹھی میں چھپا لیتی جلتی بجھتی روشنیاں ہتھیلیوں کو چھوتیں تو آنکھیں بھی ستاروں سے بھر جاتیں مگر اب جگنو کہیں کھو گئے ہیں زمیں کی کثافت سے ستارے بھی دھندلا گئے ہیں جذبے خلوص سے عاری ہیں شہر کے لوگ ماسک پہن کر باہر نکلتے ہیں فضا میں وقت نے کتنی کثافتیں بھر دی ہیں اس لیے احتیاط بہتر ہے اس سے پہلے کے آپ خود کو…

Read More