خالق آرزو ۔۔۔ ’’مگر پھر لوٹ جاتے ہیں‘‘

کتنے انمول ہیں وہ آنسو
جو آنکھوں سے نہیں بہتے
دکھائی جو نہیں دیتے
وہ آنسو
جھیل کی سی گہری آنکھوں سے
باہر نکلنے کو جب بہت بے چین ہوتے ہیں
تو کوئی احساس ماضی کا
انھیں آنکھوں کی سرحد پر
یہ کہہ کر روک لیتا ہے
ابھی تم نے نہیں بہنا
وہ کہہ گیا تھا
پہاڑوں پر برف پگھلنے تک
میرا انتظار کر لینا
بہت ہی خوبصورت ہیں
وہ آنسو
جو پانی کے کٹوروں کی
طرح سے جھلملاتے ہیں
وہ آنکھوں تک تو آتے ہیں
مگر پھر لوٹ جاتے ہیں

Related posts

Leave a Comment