کتنے انمول ہیں وہ آنسو
جو آنکھوں سے نہیں بہتے
دکھائی جو نہیں دیتے
وہ آنسو
جھیل کی سی گہری آنکھوں سے
باہر نکلنے کو جب بہت بے چین ہوتے ہیں
تو کوئی احساس ماضی کا
انھیں آنکھوں کی سرحد پر
یہ کہہ کر روک لیتا ہے
ابھی تم نے نہیں بہنا
وہ کہہ گیا تھا
پہاڑوں پر برف پگھلنے تک
میرا انتظار کر لینا
بہت ہی خوبصورت ہیں
وہ آنسو
جو پانی کے کٹوروں کی
طرح سے جھلملاتے ہیں
وہ آنکھوں تک تو آتے ہیں
مگر پھر لوٹ جاتے ہیں
Related posts
-
اکرم سحر فارانی ۔۔۔ چھ ستمبر
ظُلمت کے جزیرے سے اَندھیروں کے رسالے آئے تھے دبے پاؤں اِرادوں کو سنبھالے دُشمن کے... -
حامد یزدانی ۔۔۔ سوالیہ اندیشے
سوالیہ اندیشے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خزاں کی نئی اداسی کا رنگ کتنے برس پرانا ہے؟ زندگی مسکرا... -
خاور اعجاز ۔۔۔ امکان (نثری نظم) ۔۔۔ ماہنامہ بیاض اکتوبر ۲۰۲۳)
امکان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کو پیدا ہونے والی تاریکی روشنی کا مطالبہ کرتے ہُوئے گھبرا جاتی ہے...