ابتدا ۔۔۔ خالد علیم

اِبتدا ۔۔۔۔۔۔ تو لازوال ہے ، سب کچھ تری بساط میں ہے مرا وجود شب و روز اِنحطاط میں ہے تُو نورِ مسجد و معبد، تُو میرا ربّ ِاَحد مرا حدیقۂ جاں تیرے اِنضباط میں ہے جو لب پہ جاری ہو سُبَحانَ رَبّیَ الْاَعْلیٰ تو دل سرور میں ہے، رُوح بھی نشاط میں ہے میں تیری حمد کہوں، کیا مجال ہے میری میں تیری مدح لکھوں، کب مری بساط میں ہے میں تجھ سے چاہوں مدد نعتِ مصطفیٰ ؐ کے لیے مرے قلم کی دُعا اِھْدِنَاالصَّراط میں ہے تری خبر…

Read More

حامد یزدانی ۔۔۔ سوالیہ اندیشے

سوالیہ اندیشے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس خزاں کی نئی اداسی کا رنگ کتنے برس پرانا ہے؟ زندگی مسکرا کے پوچھتی ہے وہ ممالک کہ جن کے جھنڈوں پر امن کی فاختائیں بیٹھی ہیں جنگ کے گیت گا رہے ہیں وہی اجلی اجلی سی صبح کی تتلی کیوں چپکنے لگی ہے کھڑکی سے؟ جالیاں پوچھتی ہیں شیشوں سے سنگ باراں کی تہہ میں کیا اب بھی کل کی وحشی ہوائیں دبکی ہیں؟ کیا تصادم کا کھیل جاری ہے ! ۔۔۔۔۔۔۔۔

Read More

نظام رامپوری ۔۔۔ وہی لوگ پھر آنے جانے لگے

وہی لوگ پھر آنے جانے لگے مرے پاس کیوں آپ آنے لگے کوئی ایسے سے کیا شکایت کرے بگڑ کر جو باتیں بنانے لگے یہ کیا جذبِ دل کھینچ لایا انھیں مرے خط مجھے پھر کے آنے لگے ابھی تو کہا ہی نہیں میں نے کچھ ابھی تم جو آنکھیں چرانے لگے ہمارے ہی آگے گلے غیر کے ہماری ہی طرزیں اڑانے لگے نہ بن آیا جب ان کو کوئی جواب تو منہ پھیر کر مسکرانے لگے

Read More

محمد علوی ۔۔۔ آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں

آفس میں بھی گھر کو کھلا پاتا ہوں میں ٹیبل پر سر رکھ کر سو جاتا ہوں میں گلی گلی میں اپنے آپ کو ڈھونڈتا ہوں اِک اِک کھڑکی میں اُس کو پاتا ہوں میں اپنے سب کپڑے اس کو دے آتا ہوں اس کا ننگا جسم اٹھا لاتا ہوں میں بس کے نیچے کوئی نہیں آتا پھر بھی بس میں بیٹھ کے بے حد گھبراتا ہوں میں مرنا ہے تو ساتھ ساتھ ہی چلتے ہیں ٹھہر ذرا گھر جا کے ابھی آتا ہوں میں گاڑی آتی ہے لیکن آتی…

Read More