ملیں گے لوگ کہاں سے وہ پوچھنے والے گزر گئے ہیں جہاں سے وہ پوچھنے والے بغیر اُن کے یہاں محفلیں نہیں جمتیں گئے ہیں ایسے مکاں سے وہ پوچھنے والے جو ، اب تو ہم سے ملاقات بھی نہیں کرتے ڈرے ہیں آہ و فغاں سے وہ پوچھنے والے نکل گئے ہیں کہیں جنگلوں کو سب کے سب الگ ہیں کب کے یہاں سے وہ پوچھنے والے جدا ہوئے تو ہوئی شورشِ گماں پیدا ملے تھے امن و اماں سے وہ پوچھنے والے ہمارے حال سے صرفِ نظر کبھی…
Read MoreTag: Urdu adab
اکرم سحر فارانی ۔۔۔ چھ ستمبر
ظُلمت کے جزیرے سے اَندھیروں کے رسالے آئے تھے دبے پاؤں اِرادوں کو سنبھالے دُشمن کے قدم کی جو پڑی کان میں آہٹ جاگے تھے مری قوم کے خوابیدہ جیالے توحید کے فرزند رسالت کے مجاہد ٹیپو تھا کوئی اُن میں کوئی طارق و خالد جب شوقِ شہادت میں بڑھی اُن کی سواری شیشے کی طرح کٹ گئے پتھر کے پُجاری گونجی تھی مجاہد کی اَذاں کھیم کرن میں نصرت کی بہار آ گئی گُلزارِ وطن میں رانی کے نشانے پہ گُمنڈی کا جہاں تھا خود اپنی چِتَا بھارتی لشکر…
Read Moreشبہ طراز ۔۔۔ تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا
تُوہے تو مِرے ہونے کا امکان بھی ہو گا اور مرحلۂ شوق یہ آسان بھی ہو گا ایسے ہی چھلکتے نہیں ساگر کے کنارے تہہ میں کہیں اس کے کوئی طوفان بھی ہو گا قیدی سبھی مجرم نہیں ہوتے ہیں کہیں بھی زنداں میں کوئی یوسفِ کنعان بھی ہو گا یادوںمیں ہمارے وہی گلیاں وہی گھر ہیں یادوں میں تمہاری وہی دالان بھی ہو گا کچھ لوگوں کی باتوں سے یہاں پھول جھڑیں گے آنکھوں سے محبت بھرا اعلان بھی ہو گا
Read Moreسعداللہ شاہ ۔۔۔ کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ
کوئی دعا سلام تو رکھتے بڑوں کے ساتھ تم نے تو بدمزاجی میں ہر بازی ہار دی نہ حسنِ کارکردگی نہ کارکردگی تم نے تو یار زندگی یوں یہ گزار دی دریا نے چشمِ موج سے دیکھا ہمیں مگر ہم نے بپھرتی موجوں میں کشتی اتار دی ہم بھی بچشمِ تر رہے اس در پہ سجدہ ریز اس نے بھی بارہا ہمیں مہلت ادھار دی اے سعد اس نے دیکھی ہماری جو بے بسی کچھ کچھ ہماری دنیا بھی اس نے سنوار دی
Read Moreرخشندہ نوید ۔۔۔ دل کے اک اک شوق پر قربان تھا ، وہ بھی گیا
دل کے اک اک شوق پر قربان تھا ، وہ بھی گیا وہ بھی مجھ جیسا الگ انسان تھا ، وہ بھی گیا پتّی پتّی غنچۂ الفت بکھر جانے کے بعد باقیاتِ ربط میں اک مان تھا ، وہ بھی گیا جاتے جاتے لے اڑی اطراف سے خوشبو ہوا گھر سجا لینے کا کچھ سامان تھا ، وہ بھی گیا خود سمندر میں ڈبو دیں کاغذوں کی کشتیاں پار لگنے کا جو اک امکان تھا، وہ بھی گیا اب بچا کر خود کو کیا کرنا ہے رخشندہ تمھیں وہ جو…
Read Moreشاہد ماکلی … گھر سے نکل کے شہرِ تماشا کا رُخ کیا
گھر سے نکل کے شہرِ تماشا کا رُخ کیا اکتا گیا میں خود میں تو دُنیا کا رُخ کیا آنکھوں میں دُھول اُڑی تو گیا دشت کی طرف دل میں اٹھی جو لہر تو دریا کا رُخ کیا موجودگی ہماری یہاں اک سوال تھی جس کا جواب ڈھونڈنے ہر جا کا رُخ کیا ہر رُخ سے پھر کَنارہ کشی اِختیار کی دنیا کی سَمت لپکے ، نہ عُقبا کا رخ کیا اندھیر چھایا رہتا تھا آنکھوں کے سامنے پھر ایک روز صبحِ مدینہ کا رخ کیا شاہد کبھی نہ پائے…
Read Moreنظر امروہوی
مَیں شریکِ رونقِ ہر انجمن تھا، کل تلک آج میرے شہر میں کوئی نہ پہچانا مجھے
Read Moreمرزا غالب
بات پر واں زبان کٹتی ہے وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
Read Moreجون ایلیا
یہ کافی ہے کہ ہم دشمن نہیں ہیں وفاداری کا دعویٰ کیوں کریں ہم
Read Moreاطہر نفیس
وہ دور قریب آ رہا ہے جب دادِ ہنر نہ مل سکے گی
Read More