شاہد ماکلی … گھر سے نکل کے شہرِ تماشا کا رُخ کیا

گھر سے نکل کے شہرِ تماشا کا رُخ کیا
اکتا گیا میں خود میں تو دُنیا کا رُخ کیا

آنکھوں میں دُھول اُڑی تو گیا دشت کی طرف
دل میں اٹھی جو لہر تو دریا کا رُخ کیا

موجودگی ہماری یہاں اک سوال تھی
جس کا جواب ڈھونڈنے ہر جا کا رُخ کیا

ہر رُخ سے پھر کَنارہ کشی اِختیار کی
دنیا کی سَمت لپکے ، نہ عُقبا کا رخ کیا

اندھیر چھایا رہتا تھا آنکھوں کے سامنے
پھر ایک روز صبحِ مدینہ کا رخ کیا

شاہد کبھی نہ پائے گئے اپنے حال میں
ماضی میں جا رہے ، کبھی فردا کا رخ کیا

Related posts

Leave a Comment