ایمان قیصرانی ۔۔۔ اس سے پہلے کہ جائے خاموشی

اس سے پہلے کہ جائے خاموشی
کوئی مصرع اُٹھائے خاموشی

رات کی سیڑھیوں پہ بیٹھے ہیں
میں، تری یاد، چائے، خاموشی

پھر اداسی نے میرے ہونٹوں پر
پڑھ کے پھونکی دعائے خاموشی

یعنی اب ضبط کے مقابل ہے
دور تک انتہائے خاموشی؟

اس کے جاتے ہی اوڑھ لیتی ہے
میری دنیا ردائے خاموشی

شور ہرپا ہے جو مرے اندر
اس کو لگ جائے ہائے خاموشی

پھر سماعت میں دیر تک گونجی
نیلگوں اک ضیائے خاموشی

دھوپ بیساکھیاں اُتارے تو
میرا کمرہ دکھائےخاموشی

گھر کی تختی پہ آج لکھ آئی
یہ ہے وحشت سرائے خاموشی

سچ کہوں تو مری ضرورت ہے
تیرا آنا برائے خاموشی

اسکی دھڑکن کے راز سننے ہیں
چپکے چپکے سے گائے خاموشی

اتنی حسرت سجاو چہرے پر
مجھ سے عبرت تو کھائے خاموشی

میرے آنگن میں چارسو پھیلے
اک بُجھی رات، سائے، خاموشی

تیرے آنے سے روٹھ جاتی ہے
کوئی جا کر منائے خاموشی

Related posts

Leave a Comment