ڈاکٹر مظفرنازنین … فخرِ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی , سید فخرالدین بَلے علیگ 

فخرِ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی 

تحریکِ علی گڑھ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے جو فکری سیاسی اور شعوری انقلاب برپا کیا اس کے اثرات و ثمرات آج دنیا بھر میں دیکھے جاسکتے ہیں۔ مصدقہ تحقیق کے بعد اس حقیقت کا اعتراف تو آج دنیا بھر میں کیا جارہا ہے کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی دنیا بھرکی وہ واحد اور مثالی یونیورسٹی ہے کہ جہاں سے فارغ التحصیل طالب علم دنیا کے ہر ملک کے ہر شہر کو مہکائے   ہوئے  ہیں اور خود کو فخریہ انداز میں علیگ کہلوانا پسند کرتے ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ نا صرف بھارت بنگلہ دیش پاکستان نیپال امیریکہ ۔ آسٹریلیا ۔ افریقہ ۔ متحدہ عرب امارات ۔ روس ۔ جاپان ۔ فرانس ۔ ایران و عراق سمیت دنیا کے ہر ملک کے ہر شہر میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشنز قائم ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ اے ایم یو۔. اولڈ بوائز ایسوسی ایشن کے دفاتر قائم ہیں۔ ان تنظیموں کے زیر نگرانی سینکڑوں اسکولز اور کالجز قائم ہیں ۔ علم و ادب کے فروغ کے لیے سرگرم ان تنظیموں نے اشاعتی اور نشریاتی۔ تعلیمی ۔ تدریسی ۔ فلاحی اور سماجی بہبود کے لیے جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی سہولتوں سے آراستہ اعلی معیار کے مثالی ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ مستقل بنیادوں پر ہفت روزوں۔ پندرہ روزوں۔ ماہناموں ۔ سہہ ماہی ۔ شش ماہی اور سالنامے شائع اورجاری کیے جاتے ہیں۔ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ .سبحان اللہ ۔ ان کا طرز عمل یہ ہے کہ ان تمام امور کی انجام دہی میں ذاتی مفاد اور تشہیر کو بالائے طاق رکھا جاتا ہے اور صرف اور صرف علیگڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسو سی ایشن کے تحت ادارے کو پروموٹ کیا جاتا ہے ۔ ان بے شمار اور ان گنت خدمات میں سےایک قابل ذکر کارنامہ یہ بھی ہے کہ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے روشن ستاروں کےکارہائے نمایاں سے دنیا کو روشناس کروایا جاتا ہے۔ اور علیگیرینز کی علمی ۔ ادبی ۔ سماجی اور سیاسی خدمات ۔ فنون لطیفہ اور دیگر شعبہ جات میں مثالی ۔ تاریخی اور نمایاں کارناموں کو سراہنے اور محفوظ رکھنے اور علیگیرینز کے علمی ۔ ادبی ۔ تحقیقی ورثے کے تحفظ پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ زیر نظر کتاب سید فخرالدین بلے ایک آدرش ۔ ایک انجمن ایک ایسی تاریخی دستاویز ہے کہ جسے بلا شک و شبہ ایک شاہکار قرار دیا جاسکتا ہے ۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن ساؤتھ ایشیا ٕ اینڈ یو۔ایس۔اے۔ نے اس کتاب میں فخرِ ادب ، شہنشاہ سخن ، محسن فن اور مین آف دی اسٹیج کے خطابات پانے والے ، حضرت امیر خسرو کے سات سو برس بعد نیا قول ترانہ ۔من کنت مولا۔ اور نیا رنگ تخلیق کرنے پر ثانی ٕ خسرو قرار دیے جانے والے۔ دنیائے شعر و ادب کی ایک ممتاز اور عظیم المرتبت شخصیت سید فخرالدین بلے علیگ کی ادبی و ثقافتی خدمات اور کارناموں اور ان کی شخصیت اور فن کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرنے کے حوالے سے ایک اہم اقدام قرار  دیا جاسکتا ہے ۔ کون نہیں جانتا کہ بھارت سے تعلق رکھنے والے اور اپنی سخنوری کی بنا پر دنیا بھر میں جانے اور پہچانے جانے والے حضرت خمار بارہ بنکوی برملا طور پر خود کو سید فخرالدین بلے کے کمالات سخن کا شیدائی اور مداح کہتے آئے ہیں۔ علی سردار جعفری علیگ کو تو خود ہم میں سے بہت سوں نے یہ کہتے سنا ہے کہ سید فخرالدین بلے علیگ سے تو ہمارا عقیدت و محبت کا رشتہ علی گڑھ یونیورسٹی میں قائم ہوا تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ اخترالایمان جیسی ممتاز ادبی شخصیت سید فخرالدین بلے علیگ کو پاکستانی کنور مہندر سنگھ بیدی سحر کہا کرتے تھے ۔ پروفیسر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی جیسے نامور اور باکمال محقق اور نقاد نے اپنے ایک مقالے میں لکھا کہ سید فخرالدین بلے ادب ، ثقافت اور تصوف کا ایک بڑا نام ہے۔ قوالی اور اسٹیج کے باب میں سید فخرالدین بلے نے جو کارنامے انجام دیے اس پر ارباب ادب دم بخود رہ گئے۔ ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی کے چند ایک مقالات تو خود میری نظر سے بھی گزرے ہیں اور مجھے ان کے عنوانات تک یاد ہیں مثال کے طور پر سید فخرالدین بلے علیگ کے کمالات سخن اور سید فخرالدین بلے ادب و ثقافت اور تصوف کا بڑا نام  ۔ پروفیسر ڈاکٹر امام اعظم کے مضمون سید فخرالدین بلے ۔ ادب و ثقافت کا قطب مینار نے بھی خوب تہلکہ مچائے رکھا۔ حال ہی میں ایران کے شہر قم کے ممتاز اسکالر محقق اور خطیب علامہ سید کلبِ حسن نونہروی کے ایک تحقیقی مقالے من کنت مولا ۔ حضرت امیر خسرو کے سات سو برس بعد تاریخ ساز کارنامہ ۔ سید فخرالدین بلے کا قول ترانہ منظر عام پر آیا تو دنیا بھر میں ایک تہلکہ مچ گیا ۔ اور عراق۔ اٹلی ۔ جرمنی۔ فرانس۔ بنگلہ دیش پاکستان اور بھارت سمیت بہت سے ممالک میں صوفیائے کرام کے مختلف سلاسل سے تعلق رکھنے والے محققین نے اس فقیدالمثال تاریخی کارنامے کو تخلیقی معجزہ قرار دیتے ہوئے سلطان القول ۔ کے ضمنی عنوان کے تحت اس مقالے کے مندرجات کی بنیاد پر بہت کچھ لکھا اور نہ صرف یہ کہ لکھا بلکہ اس کو اپنے خطبات اور مباحث اور موضوعات کا حصہ بھی بنایا ۔ ہر دلعزیز اور ممتاز علمی و ادبی شخصیت اور غالب انسٹی ٹیوٹ دہلی کے ڈائریکٹر سید رضا حیدر نے سید فخرالدین بلے کو عہدِ حاضر کا خسرو قرار دیتے ہوئے انتہائی گہرائی سے اس کا جائزہ لیا اور اس قول ترانے اور اس تحقیقی مقالے میں ڈوب کر پاتال سے موتی نکالے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر اسعد بدایونی نے بھی سید فخرالدین بلے علیگ کی شخصیت و فن کو اپنے مضامین کا موضوع بنایا ابھی کل ہی کی بات ہے کہ جناب ڈاکٹر علی عباس امید علیگ کی شاندار تحریر . سید فخرالدین بلے ۔ ایک ادبی ,,,, شخصیت ایک ادارہ ۔ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔

وطنِ عزیز ہندستان دو سو سالہ فرنگیوں  کے طوقِ غلامی سے آخر کار 15/اگست، 1947ء کو آزاد ہوا۔ انگریزی سامراج کی غلامی کے شکنجے سے بلاشبہ وطنِ عزیز آزاد ہوگیا۔ لیکن ساتھ ہی ایک جمہوری ہندستان اور دوسرا مملکت خداداد پاکستان سیاسی طور پر تو بالکل الگ ہوگیے۔ اور دہلی کے لال قلعے کی فصیل پر ترنگا لہرانے لگا۔ یونین جیک اتار لیا گیا۔ اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن انگلینڈ واپس چلا گیا۔ لیکن جس طرح سے دو جڑواں بہنیں ایک جیسی ہوتی ہیں۔ ان کی شباہت، قدوقامت، اندازِ سخن، مزاج، ذہن، نشست و برخاست سب بالکل ایک جیسے ہوتے ہیں۔ شادی  کے پہلے دونوں ایک ساتھ رہتی ہیں۔ اور شادی کے بعد سسرال چلی بھی جائیں تو بھی ان کی فطرت اور شباہت نہیں بدلتی۔ یہی کیفیت ہندستان اور پاکستان کی ہے۔ جغرافیائی اعتبار سے اب تک ملتی جلتی ہیں۔ دریائے جہلم، اور ستلج کا پانی بلاشبہ دونوں ممالک کو سیراب کرتا ہے۔ یہ مختصر سی تمہید لکھنے کی ضرورت پیش آئی کیوں کہ یہ کتاب ”سید فخر الدین بلے، ایک آدرش، ایک انجمن“ ایک ای-بک ہے۔ اور عالمی اخبار نے اس کتاب کا نظر ثانی شدہ ایڈیشن شائع کیا ہے۔ اور اسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اولڈ بوائز ایسوسی ایشن، یو-ایس -اے اینڈ ساؤتھ ایشیا نے مرتب  کیا ہے۔ کتاب کے سرورق پر سید فخر الدین بلے کی خوب صورت تصویر ہے۔ جو مایہ ناز شاعر، ادیب، محقق، ناقد، دانشور، خطیب، اسکالر، صوفی محقق، صحافی سید فخر الدین بلے کی شخصیت، فن ثقافتی اور ادبی خدمات کے حوالے سے ترتیب دی گئی۔ اور سید فخرالدین بلے کی تصویر سے متصل معزز شخصیات کی تصاویر ہیں۔ جن میں ایک محترمہ بھی ہیں۔ اور یہ وہ نامور شخصیات ہیں جنھوں نے فخرالدین بلے کے تعلق سے ان کے فن، حیات اور خدمات کا بھر پور جائزہ لیا ہے۔ جن کا تعلق مشترکہ طور پر ہندستان اور پاکستان سے ہے۔ اس کے علاوہ ایران سے تعلق رکھنے والے بھی ہیں۔ اس کتاب میں نامور  ادیبوں، شاعروں، نقادوں اور دانشوروں کی نگارشات ہیں جن میں بابائے اردو مولوی عبد الحق، ڈاکٹر جگن ناتھ آزاد، گوپی چند نارنگ، آل احمد سرور، فراق گورکھ پوری، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، اشفاق احمد، بانو قدسیہ، احمد ندیم قاسمی وغیرہ ہیں۔ سید فخر الدین بلے کا تعلق ہندستان کے ہاپوڑ (میرٹھ) سے تھا۔ ان کی تعلیم و تربیت ہندوستان میں اور خصوصاً علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی میں ہوئی۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی وہ دانش کدہ ہے جہاں کا ہر ذرہ مثل آفتاب عالم تاب ہے۔ اور اس کی روشنی سے دنیا اور جہاں درخشاں اور تابندہ رہتے ہیں۔ جو علی گڑھ کے ترانے سے ظاہر ہے۔

جو ابر یہاں سے اٹھے گا۔ وہ سارے جہاں پر برسے گا
خود اپنے چمن پر برسے گا، غیروں کے چمن پر برسے گا
ہر شہر طرف پر برسے گا، ہر قصرِ طرف پر کڑکے گا
یہ ابر ہمیشہ برسا ہے، یہ ابر ہمیشہ برسے گا

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے فارغ طلبا و طالبات کی کثیر تعداد ہے جو دنیا بھر میں مقیم ہیں اور جو جہاں جس علاقے میں ہیں وہاں کے ادبی چمن زار میں خوب صورت اور خوش بودار پھول کی مانند ہیں۔ جس سے وہاں کی ادبی فضا معطر ہے۔ اسی گل دستے کے ایک پھول ہیں جناب سید فخر الدین بلے۔ جن کی پیدائش ہندستان میں ہوئی لیکن بعد میں وہ پاکستان ہجرت کرگئے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا شمار ایشیا کی عظیم یونی ورسٹیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں طلبا ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ سے بھی حصول علم کے لیے آتے ہیں اور اپنی تشنگی علم کو بجھا کر پوری طرح سیراب ہوتے ہیں۔ فخر الدین بلے انہی تشنگانِ علم میں سے ایک تھے.

گائے ہے وفا کے گیت یہاں چھیڑے ہے جنوں کے ساز یہاں
ہر شام ہے شامِ مصر یہاں ہر شب ہے شبِ شیراز یہاں

مختلف ادوار میں ہندستان سے شائع ہونے والے اخبارات و جرائد اور کتب میں شائع شدہ ادبی اور تنقیدی جائزوں اور تبصروں میں بھی موجود بہت سے حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ بھارت سے تعلق رکھنے والے بابائے اردومولوی عبدالحق ، پروفیسر جگن ناتھ آزاد، رام لعل جی، گوپی چند نارنگ ، آل احمد سرور، فراق گورکھ پوری، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، ڈاکٹر قمر رئیس، پروفیسر ڈاکٹر عنوان چشتی، پروفیسر فضیل جعفری، اخترالایمان، علی سردار جعفری، پروفیسر ڈاکٹر مناظر عاشق ہرگانوی، کمال امروہوی، پروفیسر ڈاکٹر اسعد بدایونی، خمار بارہ بنکوی، جگرمراد آبادی، حضرت مجروح سلطان پوری، ہیرانند سوز، مولانا سید ابن حیدر، مدیر شاعر افتخار امام، مدیر ترجمان ڈاکٹر فوق کریمی علیگ، پروفیسر ڈاکٹر سید حامد (سابق وائس چانسلر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، شکیل بدایونی اور بے شمار عالمی شہرت کی حامل شخصیات کا شمار فخرِ علیگڑھ مسلم یونیورسٹی سَیّد فخرَالدین بَلے علیگ کی شخصیت اور فن کے مداحوں میں ہوتا  آرہا ہے. جب کہ ادھر سرحد پار پاکستان میں بھی اشفاق احمد ، بانوقدسیہ، مدیر فنون احمد ندیم قاسمی، مدیر اوراق ڈاکٹر وزیرآغا، مدیر ادب لطیف انتظار حسین ، مدیر نقوش محمد طفیل، فیض احمد فیض، محسن بھوپالی، صہبا لکھنوی، ادا جعفری، مسعود اشعر، نصیر ترابی، نشاط فاطمہ، صدیقہ بیگم، پروفیسر ڈاکٹر آغا سہیل، ڈاکٹرسید عبداللہ، ڈاکٹر انور سدید، عطا شاد، افتخار عارف، رئیس امروہوی، جون ایلیا ، جگر مراد آبادی ، غزالئ زماں رازئ دوراں علامہ سید احمد سعید کاظمی، خواجہ نصیرالدین نصیر آف گولڑہ شریف، علامہ طالب جوہری، علامہ غلام شبیر بخاری علیگ ، مدیر محفل طفیل ہوشیارپوری، کلیم عثمانی۔ حفیظ تائب، یزدانی جالندھری، قتیل شفائی، احسان دانش، پروفیسر منظر ایوبی ۔ پروفیسر جاذب قریشی، جمیل الدین عالی، مدیر جنگ سید تقی، مدیر اردو ڈائجسٹ الطاف حسن قریشی، مدیر اقدار شبنم رومانی، مدیر بیاض خالد احمد، مدیر معاصر عطا الحق قاسمی، پروفیسر ڈاکٹر اسد اریب، مدیر دبستان  مرتضی برلاس، جاوید احمد قریشی، سید تابش الوری، اصغر ندیم سید، پروفیسر ڈاکٹر انوار احمد اور ڈاکٹر اجمل نیازی، پروفیسر صلاح الدین حیدر، پروفیسر عرش صدیقی جیسی علم و ادب کی عظیم المرتبت ہستیاں سید فخرالدین بلے علیگ کے حلقہ احباب میں شامل رہیں اور سب ہی کو جناب سید فخرالدین بلے علیگ کی علمی، ادبی اور ثقافتی خدمات اور ان کے کمال فن کا معترف پایا گیا ہے ۔
ان کی پیدائش مقام ہاپوڑ (میرٹھ) متحدہ ہندستان میں ہوئی. ان کی عمر ۷۳ سال، ۹ ماہ، ۲۲ دن تھی۔ والد کا نام سید غلام معین الدین چشتی اور والدہ کا نام امۃ اللطیف بیگم۔ دادا کا نام سید غلام محی الدین چشتی۔ سلسلہ عالیہ چشتیہ۔ سلسلہ نسب ۳۴ واسطوں سے حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ سے ہوتا ہوا حضرت علی کرم اللہ وجہہؓ سے جا ملتا ہے۔ علی گڑھ سے وابستہ تھے جن کے لیے شاعر کا یہ شعر صادق آتا ہے:

اے علی گڑھ! روحِ سید علم و فن کی داستان
چل دیا ہے اس چمن سے اب خزاں  کا کارواں

اس کتاب کا مقدمہ ڈاکٹر وفا یزدان منش نے لکھا ہے جو شعبۂ اردو یونی یورسٹی آف تہران سے ہیں۔ اس مقدمے کا عنوان ہے ”ہم سید فخر الدین بلے کے قرض دار ہیں“ موصوفہ یوں رقم طراز ہیں ”سید فخر الدین بلے ایک ایسی شخصیت ہیں جو ادبی دنیا میں جانی پہچانی ہی نہیں جاتی بلکہ علمی، ادبی، ثقافتی اور صحافتی حلقوں میں معروف و مقبول بھی ہیں۔“ سید فخر الدین بلے کی ایک سو پچاس سے زائد تصنیفات ہیں۔ یہ کتاب ہند و پاک کے نامور ادیبوں، شاعروں، نقادوں، دانشوروں کی نگارشات اور اقتباسات سے آراستہ ہے۔ اب ذرا کتاب میں شامل مضامین کے عنوانات دیکھیے۔ پاک و ہندکے معروف افسانہ نگار انتظار حسین نے” یہ سید کام کرتاہے” کے عنوان کےتحت بلے صاحب کو ایک متحرک شخصیت قرار دیاہے۔ افتخارعارف نے ”سید فخرالدین بلے۔ایک فرد۔ ایک روایت” کاعنوان اپنے مضمون کے لیے منتخب کرکے مختصر سی عبارت میں سید فخرالدین کا بھرپور تعارف کرا دیا ہے۔ سیدآل احمد سرور نے انھیں” بلندپایہ کلام کاخالق” ماناہے۔ پروفیسر منظر ایوبی کے مضمون کا عنوان قاری کو سوچنے پر اکساتا ہے اور اس عنوان “دیکھیے، اس شخص میں کتنے جہاں آباد ہیں” میں جہان ِمعانی آباد نظرآتاہے. ڈاکٹرخواجہ زکریا نے” سیدفخرالدین بلے۔ بڑے حلم و آبرو والے” کےعنوان کےتحت انھیں محبت اور عقیدت کا نذرانہ پیش کیا ہے اورمجیدا مجد کی شاعری کاسہارا لے کر انھیں بڑے احترام کےساتھ یاد کیاہے۔”ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جسے "، یہ عنوان ہے پروفیسر قیصرنجفی کے مضمون کا۔ ”سید فخرالدین بلے، تصوف پرایک اہم اتھارٹی” کا عنوان دے کر ڈاکٹر وزیر آغا نے دریا کو کوزے میں بند کردیا ہے۔ یہ عنوان ہی بتارہاہےکہ ان کی نظر میں تصوف کےحوالے سےسید فخرالدین بلےکا مرتبہ اورمقام کیا ہے؟۔ڈاکٹر انور سدید کے مضمون کاعنوان ہی سیدفخرالدین بلے کو”ایک قادرالکلام شاعر” قرار دے رہا ہے۔ ڈاکٹر فوق کریمی علیگ نے”فخرادب۔ علی گڑھ کا بلے” کا عنوان دے کر علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے وابستہ سید فخرالدین بلے کی یادوں کو اپنے مخصوص انداز میں تازہ  کیا ہے اور بتایا ہے کہ یونی ورسٹی کے تلامذہ ہی نہیں اساتذہ بھی ان کی علمیت، ذہانت اور فطانت کے معترف اور مداح تھے۔ طفیل ہوشیارپوری نے ”کئی دنیاؤں کا ایک بڑا آدمی” کو موضوع بناکر اپنے تاثرات اور مشاہدات کو پینٹ کیاہے۔”فخرالدین بلے علی گڑھ سے ملتان تک” عنوان ہے پروفیسر جاذب قریشی کے فکر انگیز مقالے کا، ڈاکٹرعاصی کرنالی نے” فخرالدین بلے۔ ایک تہذیبی ادارہ، ایک یونیورسٹی” کوعنوان بناکرحرف ستائش بڑی محبت کے ساتھ پیش کیاہے۔ اصغرندیم سید نے”سید فخرالدین بلے۔ ایک تہذیب  ساز ہستی” کےعنوان کی بنیاد پر ان کی شخصیت اور خدمات کی تصویرکشی کی ہے۔”ایک داستان ۔ایک دبستان ” ہے پروفیسر افتخار اجمل شاہین کے مبسوط مقالے کا خوب صورت عنوان. ظفرعلی راجہ نے” صوفی بلے اوران کی صوفیانہ شاعر” کے موضوع پر صرف لکھا ہی نہیں، اس موضوع سےخوب خوب انصاف بھی کیا ہے۔ ”قول اور رنگ ۔بلے بلے” کو موضوع بناکر سید سعید احمد جعفری علیگ نے سید فخرالدین بلے کی قوالی کےحوالے سے تاریخی اور تاریخ ساز خدمات کا احاطہ کرنے کی سعی مشکور کی ہے۔ غزالی زماں، رازی دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی مرحوم نے امیرخسرو کے سات سو سال بعد سید فخرالدین بلے کے قول ترانے کو ایک قابل قدر کارنامہ قرار دیا ہے. امیرخسرو نے ساڑھے سات سوسال پہلے جنوبی ایشیامیں قوالی کی بنیاد رکھی تھی، ان کے بعد کسی نے قول کی تصریحی تہذیب کی جسارت نہیں کی، یہ سہرا بھی سید فخرالدین بلے کےسر ہے کہ انھوں نے نیا رنگ تخلیق کیا اور نیا قول ترانہ بھی۔ اس کتاب میں ان کانیا رنگ اور نیا قول ترانہ بھی شامل کرلیاگیاہے۔ سید فخرالدین بلے کی کثیرالوصف اور کثیرالجہت شخصیت درحقیقت ان گنت شخصیات کاخوب صورت گلستاں نظرآتی ہے۔کمال احمد رضوی جیسی باکمال شخصیت نے انھیں” علم و ادب کااثاثہ” لکھا، پروفیسر خالد پرویز نے سید فخرالدین بلے کو بجا طور پر مین آف دا اسٹیج کی حیثیت سے محبت اور عقیدت کاخراج پیش کیا۔اس لیے کہ سید فخرالدین بلے نے پچیس روزہ جشن تمثیل کا اہتمام کر کے ڈائریکٹر ملتان آرٹس کونسل کی حیثیت سے جو ثقافتی دھماکہ کیا تھا، اس کی گونج سرحد پار بھی سنی گئی، اور اسٹیج کےجو فن کار سامنے آئے، وہ ٹی وی اسٹار بن گئے. اسی لیے ان کے ساتھ ایک خوب صورت شام کا اہتمام کرکے انھیں محسن فن اور مین آف دا اسٹیج کےخطابات سے نوازا گیا۔ شبنم رومانی نے”سید فخرالدین بلے کے ادبی نقوش” کواپنا موضوع بھی بنایا اورانھیں اختصار کے ساتھ اپنے مخصوص انداز میں اجاگر بھی کیا ہے. ڈاکٹر انور سدید نے ”لاہورمیں قافلے کاسفر” لکھا ، جو سید فخرالدین بلےکی ادبی ہنگامہ آرائیوں کی بڑی دل کش داستان ہے، اسی طرح اسرار زیدی نے ”قافلے کے پڑاؤ ۔ایک  مستحکم روایت ” میں بلے صاحب کی ادبی اورثقافتی تنظیم قافلہ کی عالمی بیٹھکوں کی تصویر کشی کی اور بھولی بسری یادوں کو نئی زندگی بخشی ہے۔ یہ کتاب مرتب کر کے سید فخرالدین بلےکی تخلیقی جہتوں، ان کے فکری آفاق کی وسعتوں، ان کے کارناموں، اورقافلےکی سرگرمیوں کااحاطہ کرنے کے لیے قابلِ  تحسین قدم اٹھایا گیا ہے۔ مشہور زمانہ اوریگانۂ روزگار شخصیات کےفکر انگیز مقالات اوربصیرت زا تاثرات اکٹھے کرنے سے یہ کتاب سید فخرالدین بلے کےفن، سخن ، افکار، خیالات اورخدمات کےحوالے سے اہم مرقع اور ایک کلیدی ماخذ کی حیثیت سے سامنے آئی ہے. انٹرنیٹ پر بھی لوگ اس سے مستفیض ہوئے ہیں. اور اب منتظمین نے “سید فخرالدین بلے ۔ایک آدرش، ایک انجمن” کو سپرد قرطاس و قلم کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اسے لائبریریوں کی زینت بھی بنایا جاسکے۔ اس کے علاوہ سید فخر الدین بلے کا سوانحی خاکہ ہے۔ کتاب کے آخری صفحات میں نعتیں، منقبت علی، سلام بحضور امام عالی مقام کے ساتھ نظمیں اور غزلیں بھی شامل ہیں۔
سید فخر الدین بلے ایک عظیم شخصیت تھے۔ 150 سے زائد مطبوعات تالیف کرچکے ہیں۔ مقدمہ میں وفا یزداں منش یوں رقم طراز ہیں۔ ”راقمہ کا یہ تجربہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی کہ وہ لوگ، جن کا تعلق علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ہوتا ہے یا رہا ہے، ان کی مضبوط علمی شخصیت بنتی ہے۔“ جیسا کہ علی گڑھ کے ترانے سے ظاہر ہے

ہر جوئے رواں پر برسے گا، ہر کوہ گراں پر برسے گا
ہر سر و سمن پر برسے گا، ہر دشت و دمن پر برسے گا
خود اپنے چمن پر برسے گا غیروں کے چمن پر برسے گا

روزنامہ جنگ میں جمیل الدین عالی نے اپنے سلسلہ وار کالم ”نقار خانے میں“ بلے صاحب پر تین کالم لکھے ”سید فخر الدین بلے۔ ایک آدرش۔ ایک انجمن“ اہل ادب اور مرتبین کو یہ عنوان اتنا پسند آیا کہ کتاب کا نام یہی رکھ دیا۔
علامہ سید غلام شبیر بخاری نے بلے صاحب کے تعلق سے ایک جامع خاکہ قلم بند کیا۔ جس میں بلے صاحب کے نام کی وجہ تسمیہ، تعلیم، شجرہ نسب اور شخصیت کے ہر پہلو کو اجا گر کیا ہے۔ مختلف عناوین کے تحت مضمون نگار نے شان دار مضامین ترتیب دیے ہیں. جیسے زمرد کے تختے میں ہیرے جڑے ہوں۔ یا یوں کہیے کہ ایک خوب صورت گل دستے میں رنگ برنگ  خوش بو دار پھول سے گل دستے کا حسن دوبالا ہوجاتا ہے۔ جن میں بیلا، چنبیلی، گلاب، رات کی رانی، سورج مکھی، چمپا، جوہی سب ہی شامل ہوں۔ انتظار حسین نے ”یہ سید کام کرتا ہے“ افتخار عارف نے ”سید فخر الدین بلے“ ایک فرد ایک روایت“ کا عنوان دے کر بلے صاحب کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے۔ ڈاکٹر خواجہ زکریا نے ”سید فخر الدین۔ بڑے  حکم و آبرو والے“ پروفیسر قیصر نجفی کے مضمون کا عنوان ہے۔ ”ایسا کہاں سے لائیں کہ تجھ سا کہیں جیسے“۔ بلے صاحب کو فارسی زبان پر عبور تھا کہ وہ فارسی میں روانی کے ساتھ گفتگو کیا کرتے تھے۔ اصغر ندیم سید کہتے ہیں:

”ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ فخر الدین بلے صاحب کی علمی و ادبی شخصیت ایک چمن زار، گلزار ، گلستان ہے، جس میں طرح طرح اور رنگ  برنگ کلیاں کھل گئی ہیں۔ چمن زار ،گلزار ، گلستان اور ان کی مہک سے اردو ادب کو مہکایا جائے گا، کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو خوش بو کی طرح ہوتے ہیں. دنیا سے چلے بھی جائیں تو خوش بو چھوڑ جاتے ہیں اور ان کی شخصیت سے باغِ ادب ہمیشہ معطر رہتا ہے۔ شعر و سخن کی یہ شمعِ عندلیب آخر کار جنوری 2004ء کو 73 سال کی عمر میں شعلہ مرگ کے لپیٹ میں آگئی۔ لو تھر تھرائی اور خاموش ہوگئی۔ خفیف سا دھواں اٹھا اور فضا میں تحلیل ہوگیا۔ لیکن اس کی مہک آج بھی ہمارے ادبی چمن زاروں میں حسن و رنگ و لو فراہم کرنے میں سرگرم عمل ہے۔
فخر الدین بلے علیگ شعر و ادب کے حوالے سے محتاج تعارف نہیں۔ اس کا ثبوت اس کتاب ”سید فخر الدین بلے۔ ایک آدرش۔ ایک انجمن“ میں مشاہیر اہلِ قلم کی آراء اور ان کی گراں قدر تحریروں سے ہوتا ہے۔ ہندو پاک کے مایہ ناز شعرا کی شاہ کار نگارشات بلے صاحب کے معتبر اور مشہور ہونے کی سند پر مہر لگاتی ہے۔ ان مشاہیر اہلِ قلم نے نہایت دیدہ ریزی اور محنت کے ساتھ یہ کام انجام دیاہے۔ اردو ادب میں بلاشبہ یہ ایک خوش گوار اضافہ ثابت ہوگا اور فخر الدین بلے صاحب کی شخصیت کو سمجھنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔
اس کتاب کو پڑھنے سے ایسا معلوم ہو تا ہے جیسے اردو کے نامور فن کاروں کی نگارشات کو یکجا کرکے کتاب میں قوسِ قزح کے رنگ بھردیے ہیں۔ اس گراں قدر کتاب کے لیے وہ تمام مشاہیر اہلِ قلم قابل مبارک باد ہیں جنھوں نے بڑی ہی محنت، عرق ریزی اور تلاش و جستجو کے بعد ”فخر الدین بلے ایک آدرش۔ ایک انجمن“ کے نام سے ایک دستاویزی کتاب مرتب کی ہے۔ یہ کتاب جاذبِ نظر ہے۔ ترتیب بھی بہت سلیقہ اور تہذیب سے کی گئی ہے۔ مذکورہ کتاب ”فخر الدین بلے ایک آدرش۔ ایک انجمن“ سے بلے صاحب کی عہد ساز شخصیت کو سمجھنے کے لیے مختلف زاویوں سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب اردو میں کم یاب روشِ اعترافِ خدمات کی ایک اہم کڑی ہے۔ اس کتاب میں فخرالدین بلے صاحب کے فن کا جائزہ، محاسبہ اور مخاطبہ مشاہیر قلم نے لیا ہے اور علی گڑھ اولڈ بوائز ایسوسی ایشن نے مرتب کیا ہے۔ جو قابل صد ستائش ہے۔ کتاب کے مشمولات نے کافی متاثر کیا۔ سب نے حق ادا کیا ہے۔ اس کتاب میں بلے صاحب کے فن اور شخصیت پر ممتاز قلم کاروں کی تحریریں منفرد انداز میں ترتیب دی گئ ہیں۔ ان میں مشاہیر ادب کے نگارشات فخر الدین بلے صاحب سے بے پناہ خلوص اور عقیدت کا مظہر ہیں۔
وفا یزداں منش نے لکھا ہے:”کتاب میں چھپے موتیوں کی جھلکیاں دکھا کر قارئین کرام کے دلوں میں آتش شوق بھڑکانے کا سامان بہم پہنچایا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر ایک انتہائی قد آور علمی اور ادبی شخصیت، حب الوطنی سے سرشار، سراپا، خلوص و ایثار اور مٹی کا قرض دار اور ہستی آنکھوں کے سامنے آجاتی ہے۔ اس کتاب کا عنوان بلے صاحب کی ہمہ گیریت کو زیب دیتا ہے۔“یہ شعر اس حوالے سے وفا یزداں منش نے لکھا ہے۔

میں بعد مرگ بھی بزم وفا میں زندہ ہوں
تلاش کر مری محفل، مرا مزار نہ پوچھ

آج سید فخرالدین بلے علیگ ہمارے درمیان نہیں لیکن اپنے چاہنے والوں میں زندہ ہیں.طفیل ہشیارپوری کہتے ہیں بلے صاحب نے چَھپنے سے زیادہ چُھپنے کو پسند کیا۔ بلے صاحب نے اپنا سرمایہ سخن، مجموعوں اور بیاضوں اور کلیات کی شکل میں منظرِ عام پر لانے کی سعی نہیں کی۔ اور جگہ جگہ ان کی تخلیقات بکھری پڑی ہیں، ان کو یکجا کرنا سہل نہیں۔دوسرا سبب بلے کا شمار ان لوگوں میں ہے جو خود سے بے نیاز صرف دوسروں کے لیے زندہ رہتے ہیں جنہیں اپنی نیک نامی کا خیال نہ صلے کی پرواہ اور نہ نام و نمود کا شوق تھا۔
جگن ناتھ آزاد یوں رقم طراز ہیں سید فخر الدین بلے علیگ کی خوب صورت شعری تخلیقات پڑھنے یا سننے کے بعد برسوں تک ان کے سحر سے آزاد ہونا مشکل ہے۔ ڈاکٹر اسلم انصاری کہتے ہیں: سید فخرالدین بلے نے سات صدیوں کے بعد رنگ لکھ کر نہ صرف رنگ  کی روایات کا تحفظ کیا بل کہ اسے آگے بھی بڑھایا ہے۔ قوالی میں قول اور رنگ دونوں امیر خسرو کے پیش ہوتے ہیں۔ انھوں نے سات صدیوں بعد قول ترانہ پیش کیا۔ جس کی دھنیں ریڈیو پاکستان ملتان نے ترتیب دی۔

ڈاکٹر آغا سہیل نے سید فخر الدین بلے صاحب کے تعلق سے کہا ہے”ایک شخصیت نہیں ایک قافلہ ہیں۔“ڈاکٹر فوق کریمی علیگ کا مضمون علی گڑھ کا بلے“ کے عنوان سے ہے۔ کہتے ہیں: "سید فخر الدین بلے علیگ کمرہ نمبر پچاس میں رہتا تھا۔ اگر صحیح یاد ہو تو پچاس نمبر روم میں انجم اعظمی روم میٹ تھے۔ کہتے ہیں پانچ کا ہندسہ بلے صاحب کو پسند تھا۔ نماز -5، ”میرے ان سے تعلقات دوچار برس کا قصہ نہیں۔ نصف صدی سے زیادہ کی بات ہے۔ علی گڑھ میں جو رشتہ قائم ہوا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر چلا گیا“. انھیں یاد کرتے ہیں اور کہتے ہیں یادوں کو سمیٹنے کے لئے ضخیم کتاب میں سمویا جاسکتا ہے۔ جنھوں نے علی گڑھ سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کی اپنی شناخت  ہوتی ہے اور اس دانش کدہ کا اثر  اس کی کیرئیر پر ہوتا ہے جیسا کہ علی گڑ کے ترانے سے ظاہر ہے .

ہند و پاک کے مختلف مایہ ناز ادبا اور شعرا نے مختلف اور دل کش عناوین دیے ہیں۔ جوش ملیح آبادی کے بقول ”فخر الدین بلے کے کلام میں دریا کی روانی اور جذبوں کی فراوانی ہے۔“فراق گورکھپوری کے بقول ”سید فخر الدین بلے رنگوں کے بجائے الفاظ سے تصویریں بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ عنوان چشتی یوں رقم طراز ہیں۔ ”سید فخر الدین بلے کے اندر ایک نامعلوم جہاں آباد ہے جو وقتاً فوقتاً ان کے کردار میں جلوہ گر ہوتے ہیں۔ وہ خواجہ غریب نوا ز کے یادگاری ہیں۔ ان کی زندگی اور شاعری میں چشتیہ مسلک اور تصوف کا رنگ اور بھی نکلتا اور دکھتا ہے۔” ڈاکٹر وزیر آغا کے بقول ”تصوف کے موضوع پر ان کی نظر اتنی گہری ہے کہ آپ بلا تکلف اس سلسلے میں ایک اہم اتھارٹی قرار دے سکتے  ہیں۔“بابائے اردو مولوی عبدالحق کہتے ہیں ”ان کی نظم ہو یا نثر، نقص نکالنا محال ہے۔

عمر کے ابتدائی ادوار میں انھیں مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر ذاکر حسین، مولانا حسرت موہانی، مولوی عبد الحق، تلوک چند محروم، سیماب اکبر آبادی، سر شاہنواز بھٹو، صادقین، حفیظ جالندھری سے خصوصی مراسم رہے۔ ان کی صحافتی زندگی کا جائزہ لیں تو بلے صاحب سے قریبی تعلق رکھنے والوں کے اندازہ کے مطابق 150 سے زیادہ کتابیں، سو وینر، بروشرز، کتابچے انہوں نے مرتب یا مدون کیے۔ ملک کی انتظامیہ سے تعلق رکھنے والے اعلیٰ افسران، سرکاری اہل کاروں، چوٹی کے حکمرانوں جن میں صدور، وزرا، سکریٹریز بھی شامل ہیں، کی مختلف موضوعات پر تقریریں لکھی ہیں۔ ان کے کلام کو صوفیائے کرام نے سراہا بلکہ دریائے تصوف کے غواصوں نے بھی تحسین و آفرین سے نوازا۔ احباب نے ان کی شخصیت کے ہر پہلو کا جائزہ لیا ہے۔ وہ کثیر الجہت شخصیت کے مالک تھے۔ بلے ایک شخص کا نہیں، ایک یونیورسٹی اور ایک تہذیبی ادارہ کا نام ہے۔ جس کے زرخیز دماغ میں ایک کمپیوٹر نصب ہے۔ جن میں ان گنت و بے شمار علوم فیڈ کردیے گئے ہیں۔ جس کا ظہور حسب ضرورت ہوتا رہتا ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر عاصی کرنالی کے چند اشعار

محبت تھا عمل ، ہر گام فخرالدین بلے کا
یہ ہے احسان اور انعام فخرالدین بلے کا

قلم سے اور زباں سے صرف تبلیغِ محبت کی
دلوں کو جوڑنا تھا کام فخرالدین بلے کا

زمیں کو سب بہشتِ امن میں تبدیل کر ڈالیں
تھا دنیا بھر کو یہ پیغام فخرالدین بلے کا

وہ مر کر بھی رہیں گے یاد کی صورت ہر اک دل میں
سدا زندہ رہے گا نام فخرالدین بلے کا

” سید فخرالدین بلے کاقول ترانہ ۔ ایک تخلیقی معجزہ” اس عنوان کے تحت ممتاز عالم دین ، منبر  رسول اللہ ص کی حرمت کے امین ، عظیم المرتبت مذہبی اسکالر ، محقق اور بے مثل و بے نظیر خطیب اور مقرر مولانا سید ابنِ حیدر ، (لکھنئو) کے تاثرات : محبوبِ رب العالمین، رحمۃ للعالمین حضرت محمد مصطفیٰ احمدِ مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الکمال سے و اپسی پر جس اہتمام کے ساتھ مولا علی علیہ السلام کی ولایت کا اعلان فرمایا ، وہ کسی بیان کامحتاج نہیں۔ خُمِ غدیر کی فضائیں من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کی صداؤں سے گونج اٹھیں اور پھر چہاردانگ ِعالم میں اس کی بازگشت سنائی دی. صوفیا اور اولیاء اللہ کے حلقوں میں من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کاورد ہونے لگا بلکہ یہ ان کاوظیفہ بن گیا۔ مولائےکائنات حضرت علی المرتضی ٰعلیہ السلام کےخلفا نے اپنے حلقوں میں جوروایت قائم کی تھی ، وہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتی رہی۔ مولائےکائنات حضرت علی المرتضی علیہ السلام کی شہادت کے سات سو سال بعد سید گھرانے کی ایک عظیم الشان روحانی شخصیت خواجۂ خواجگاں حضرت معین الدین چشتی سنجری اجمیری نے متحدہ ہندوستان میں آکر دینِ اسلام کاچراغ روشن کیا۔ اس چراغ سے لاکھوں چراغ روشن ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا اجالا پھیلتاچلاگیا۔ یہیں سے قولِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یعنی من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کی بنیاد پر گائیکی اور موسیقی کی ایک نئی صنف قوالی سامنے آئی۔ محبوب الہیٰ حضرت خواجہ نظام الدین اولیا کے ایما پر حضرت امیر خسرو دہلوی نے من کنت مولاہ فھٰذا علی مولاہ کو اساس بناکر قول ترانہ تخلیق کیا اور آج بھی قوالی کی محفلوں کا آغاز اسی قول ترانے سے ہوتاہے۔ قوالی کارنگ  ڈھنگ بدل چکاہے لیکن جس محفل میں یہ قول ترانہ نہیں پڑھاجاتا، اسے قوالی کی محفل نہیں سمجھا جاتا اورنہ ہی وہ قوالی کی محفل ہوسکتی ہے. سات سو سال سے امیرخسرو کا قول ترانہ ہی قوالی کی محفلوں میں پیش کیاجاتا ہے۔ یہ روایت اتنی مستحکم ہوچکی ہے کہ سات سو برسوں کے دوران کسی بڑے سے بڑے شاعر نے نیا قول ترانہ تخلیق کرنے کاسوچاتک نہیں. سلام ہے چشتیہ خانوادے کے چشم و چراغ سید فخرالدین بلے صاحب کو، جنہوں نے امیر خسرو دہلوی کے بعد نیا قول ترانہ تخلیق کیا۔ جسے بجاطور پر ایک تخلیقی معجزہ قراردیا جاسکتا ہے. بلے صاحب نے حمد، نعت اور منقبتوں کے موتیوں کو ایک لڑی میں پرو دیاہے۔ پہلا بند ملاحظہ فرمائیں ۔
اللہ تو واللہ ، ھواللہ ُ احد ہے
وہ قادر ِمطلق ہے، وہ خالق ہے، صمد ہے
احمد میں اِدھر میم، اُ دھر منی و منھہ
اِک پردۂ ادراک ہے ،اِک عقل کی حد ہے
غور فرمائیے۔کچھ نہ کہہ کر اور ایمائیت اور رمزیت کاحسن برقرار رکھتے ہوئے پردۂ ادراک ہی اٹھا دیا ہے۔ اس بند میں بھی ہمیں حمد، نعت اور منقبت کا دل کش امتزاج دکھائی دیتاہے ۔تین دریا یکجا ہوکر بہنے لگیں گے تو یہ خوب صورتی دیکھی جاسکتی ہے ۔
قرآن حکیم ، ارشادات نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور مستند تاریخی روایات سے انھوں نے جو ثمرات سمیٹے، انھیں بڑی فن کارانہ مہارت کےساتھ اپنے قول ترانے کی زینت بنا دیا ہے۔ عربی ، فارسی اور اردو زبان کے خوب صورت الفاظ نایاب نگینوں کی طرح اس پریم مالا میں جڑے ہوئے نظر آتے ہیں۔مولائے کائنات حضرت علی المرتضیٰ علیہ السلام سے اپنی پہلی محبت و عقیدت کا اظہار انھوں نے سیرت و شخصیت پر ایک تحقیقی کتاب “ولایت پناہ ” لکھ کر کیا تھا۔ جو نثرنگاری کاشاہ کار ہے. جب کہ اس قول ترانے میں انھوں نے اپنی محبتوں کے رنگوں کو شعری زبان بخشی ہے. میں اسے ایک تخلیقی معجزے کے سوا اورکوئی نام نہیں دے سکتا۔ اللہ تبارک و تعالی ٰ اس قابل ِ  قدر کاوش کوشہرت عام اور مقبولیت ِ دوام کی سند عطافرمائے۔”

ڈاکٹر قمر رئیس فخرالدین بلے علیگ کے قدردان ہیں۔ کہتے ہیں بلے ہندوستان سے پاکستان چلا گیا لیکن اس کے نصیب کی ہجرتیں ابھی باقی ہیں۔ اسی لیے کبھی پتہ چلتا ہے کہ وہ کوئٹہ میں ہے۔ کبھی سنتے  ہیں اس نے قلات اور خضدار میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کبھی اطلاع آتی ہے کہ اس نے پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کو اپنا بسیرا بنارکھا ہے۔ کبھی لاہور سے اس کی سر گرمیوں کی خبریں پہنچتی ہیں۔ اس کے پاوں میں چکر ہے۔ ڈاکٹر قمر رئیس یہ بھی چاہتے ہیں کہ بلے کی شخصیت اور فن کے حوالے سے منظم انداز میں کوئی تحقیقی کام ہونا چاہئے۔ محض کچھ نظمیں اورغزلیں لے کر ان کی بنیاد پر مضامین لکھنے کافی نہیں۔ وہ جن لوگوں کے ساتھ رہا، جن کے ساتھ ہے، جن سے علمی اورادبی موضوعات پر تبادلہ خیال کرتا ہے۔ ان سے مضامین لکھوائے جائیں تو بلے کے کئی نئے رخ سامنے آئیں گے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ بلے کے پاکستان چلے جانے کے بعد بھی مولانا حسرت موہانی سے ملاقات ہوتی تو وہ بلے کی خیریت کے حوالے سے ضرور پوچھتے تھے۔ وہ بلے کے قدردان کیوں تھے؟ یہ کون بتائے گا؟ بابائے اردو مولوی عبدالحق کو بلے میں کیا نظر آیا؟ ہم نہیں جانتے۔ جو ہوچکا، اس پر پچھتاوا بے سود ہے۔ ہمیں بلے کے اندر جو جہان آباد ہیں، انھیں دریافت کرنا ہوں گے۔ پھر بلے کا ایک شعر سناتے ہوئے بھائی قمر رئیس نے یہ بھی کہا کہ اسے شعر نہ سمجھنا بل کہ ایک سچائی ہے، جس سے بلے کی شخصیت اور فکر کی وسعتوں کو سمجھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ شعر آپ بھی سُن لیں۔

ہے ایک قطرۂ خود ناشناس کی طرح
یہ کائنات مری ذات کے سمندر میں

ملک کے گوشے گوشے اور کونوں کونوں میں معیاری ادب کے بیسوں تحقیق کاروں نے کس مپرسی کی زندگی گزاری اور دیوان یا مجموعہ کی اشاعت کی حسرت دل میں لیے دنیا سے سدھارتے دیکھا۔حقیقت یہ ہے کہ سید فخر الدین بلے صاحب نے فن کاروں، ادیبوں اور شاعروں کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔ نیاز محمد ارباب نے سید فخر الدین بلے کو علم کی آبگینہ اور ثقافت کا نگینہ کہا۔ شبنم رومانی اپنے مضمون بعنوان ”سید فخر الدین بلے کے ادبی نقوش میں کہتے ہیں۔ ”سید فخر الدین بلے کی شخصیت کثیر الجہت اور ان کی شاعری کئی ادوار پر محیط ہے۔ نظموں میں بلا کا زورِ بیان ہے۔“ اور آخر میں یوں رقم طراز ہیں۔ادیبوں اور شاعروں  کا قافلہ ان کے گھر پر ہر مہینے کی یکم تاریخ کو پڑاؤ ڈالتا ہے۔ بڑے بڑے ادبی ستاروں کی کہکشاں ان کے آنگن میں سجی نظر آتی ہے اور قافلے کے سفر اور پڑاؤ کی بازگشت ہمیں ان کے مجلے آوازِ جرس   میں سنائی دیتی ہے۔
میں نے اس کتاب ”سید فخر الدین بلے ایک آدرش ایک انجمن“ کے پہلے حصہ کا بغور مطالعہ کیا۔ اور یہاں ہندو پاک کے مایہ ناز مشاہیر ادب کی شاہ کار نگارشات کو پڑھ کر معلوم ہوا کہ واقعی بلے صاحب ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے۔ اپنی ذات سے ایک انجمن تھے۔

وہی ہے فخرِ ادب اور شہنشاہ ِ سخن
کہ بَلّے نام سے یہ سارا شہرجانے جسے
  (مجروح سلطان پوری)

زیر نظر تبصرے کی یہ قسط اول ہے جو کہ حصہ ٕ نثر پر مشتمل ہے۔ اس کتاب سید فخرالدین بلے ایک آدرش۔ ایک انجمن میں سید فخرالدین بلے کی قادرالکلامی کی گواہی دیتی ہوئی سحر انگیز اور فکر انگیز شاعری پر مشتمل حصہ ٕ نظم پر تبصرہ دوسری قسط میں پیش خدمت ہے اور اس کا عنوان ہے "سید فخرالدین بلے علیگ کی شعری کاٸنات”۔

   سید فخرالدین بلے علیگ کی شعری کائنات

"سَیّد فخرالدین بَلّے کی شعری کاٸنات” سید فخر الدین بلے – ایک آدرش ، ایک انجمن۔اعلی ٰپائے کی خوبصورت ای ۔ بُک کے حصہ ء نظم۔ کا ایک جائزہ ۔ ایک مطالعہ . از قلم :ڈاکٹر مظفر نازنین، کولکاتا ، انڈیا

سید فخر الدین بلے – ایک آدرش،ا یک انجمن، بڑی خوبصورت اور اعلیٰ پائے کی ای۔ بُک ہے۔جو ہند و پاک کےنامور ادیبوں ، شاعروں اور نقادوں کی , مشاہیر ادب کی شاہکار  نگارشات کا مجموعہ ہے۔ یہ الیکٹرانک کتاب اولڈ بوائز ایسوسی ایشن مسلم یونیورسٹی علی گڑھ نے کئی برس کی محنت سے مرتب کی ہے اور حال ہی میں اس کا دوسرا ترمیمی ایڈیشن منظرعام پر آیا ہے ۔جسے پڑھ کر ایک قد آور شخصیت ہمارے سامنے آئی ہے۔ سیدفخرالدین بلے مایہ ناز ادیب ، شاعر، دانشور ، نقاد ، صوفی ، فنون و ثقافت کے دلدادہ، منجھے ہوئے ماہر تعلقات عامہ ،کالم نگار، انسان دوست اور اسٹیج کی دنیا کی بڑی متحرک شخصیت تھے۔ میں نامورادیبوں کی تحریروں سے آراستہ کتاب کے اولین حصے پر تفصیلی تبصرہ اور تجزیہ کرچکی ہوں اور کئی اقساط پر مبنی میرے تجزئیےاور تبصرے بھارت سمیت کئی ممالک کے اخبارات کی زینت بن چکے ہیں ۔
اب اسی تالیف سیدفخرالدین بلے ۔ایک آدرش ۔ ایک انجمن کا دوسرا حصہ میرے سامنے ہے جس میں مرتبین نےسیدفخرالدین بلے کی شعری تخلیقات شامل کی ہیں ۔ کتاب کے اس دوسرے حصے میں فخر الدین بلے صاحب کی نعتیں، مناقب، سلام، غزلیں، نظمیں، آزاد نظمیں، قطعات اور ہائیکو شامل  ہیں۔ یہ شاعری پڑھ کراندازہ ہوتا ہے کہ بلے صاحب واقعی ایک عظیم المرتبت قادرالکلام شاعر اوراپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔ان کی فکر کی بلندپروازی ، ان کے خیالات کی رعنائیاں،زبان و بیان پر ان کی قدرت ، احساسات کی نزاکتیں اور دلوں کو چھولینے والی بندشیں ان کی خوبصورت شعری نگارشات  کی زینت ہیں ۔ انہوں نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی اور اپنی انفرادیت کے رنگ دکھائے ہیں ۔نعتیں بھی ایمان افروز اور مناقب و سلام بصیرت آگیں ۔نظموں میں ان کی فکر آسمان ِ تخیل کو چھوتی محسوس ہوتی ہے اور غزلوں میں جدت اور قدامت کے خوبصورت امتزاج نے ان کی شاعری کو غیر معمولی دلکشی عطاکی ہے ۔

ان کی لکھی ہوئی نعت کے چند خوبصورت اشعار میزانِ فصاحت میں تلےہوئے اور کوثر و زمزم سے دھلے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور روح کی بالیدگی کاسامان بہم پہنچاتے محسوس ہوتے ہیں۔اس زمین میں بہت سے شعراء نے عقیدت و محبت کے پھول کھلائے ہیں ،لیکن سید فخرالدین بلے کااپنا ہی رنگ ہے ۔اپنی بات کی تصدیق کیلئے میں یہاں ان کے چند اشعار پیش کررہی ہوں۔ سبحان اللہ کیابات ہے ۔ہر مصرعے  میں درود و سلام کا نذرانہ بھی پیش کیا گیا ہے۔

اول و آخر رحمت ِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم
حسنِ سراپا عشق ِمجسم صلی اللہ علیہ وسلم

مظہر ِنور ِ ذات ِ الٰہی،سر ِ علوم و راز ِخدائی
ہادیٔ برحق رہبرِ اعظم صلی اللہ علیہ وسلم

روئے منور، سیرتِ اطہر شافع ِمحشر ساقی ٔ کوثر 
تم ہو جمال ِ روحِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم

مہر ِگدا یاں، لطفِ یتیماں، محسنِ انساں، عاشقِ یزداں
شانِ خودی و فخر ِدو عالم صلی اللہ علیہ وسلم

وارث ِ ایماں، چشمۂ عرفاں، مہر ِدرخشاں، صاحب ِقرآں
شانِ  یقیں، ایقان ِ مسلم صلی اللہ علیہ وسلم

ماہِ فروزاں، نیر ِتاباں نعمت ِ یزداں، دلبرِ رحماں
تم سے مشرف عرش ِمعظم صلی اللہ علیہ وسلم

شوق کا عالم اللہ اللہ! عشق ِمحمد بلے بلے
نورِ نبی ہے وجہ ِ دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم

بلّے صاحب کی اس نعت کو پڑھ کر درِ پاکؐ کا منظر سامنے آجاتا ہے۔ گنبد ِخضریٰ کا روح پرور نظارہ نظروں کے سامنے رہتا ہے۔ خدا ہم سبھوں کو درِ پاک ؐ کی زیارت نصیب کرے۔ بقول شاعر :

الٰہی یہ تمنا ہے کہ موت آئے مدینے میں
نظر کے سامنے خیر الوریٰ کا آستانہ ہو

سید فخرالدین بلے کا منقبتی کلام بھی عشق میں ڈوبا ہواہے ۔زبان کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔ ایک ایک لفظ میں حب ِ اہل بیت اطہار دھڑکتی نظرآتی ہے ۔سید فخرالدین بلے صاحب کی ایمان افروز منقبتِ حسین ابن علی علیہ السلام کے چند خوبصورت بند ملاحظہ فرمائیں اس منقبت کاعنوان ہے ۔ ’’حسینؓ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے‘‘:

الٰہی ،کون مٹا دین کی بقا کے لیے
یہ کس نے جام ِشہادت پیا وفا کے لیے
یہ کس نے کردیا قربان گھرکاگھر اپنا
یہ کس نے جان لُٹادی تِری رضا کے لئے
حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے

قیامِ فصل ِ بہاراں کا کام باقی تھا
علاج ِ تنگی ٔ داماں کا کام باقی تھا
ابھی رسالت ِ ایماں کا کام باقی تھا
شعورِ حکمتِ قرآں کی انتہا کے لیے
حسین ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے

بھٹک رہا تھا اندھیروں میں کاروان ِ رسول
اسیرِ دام ِ مصائب تھا خاندانِ رسول
امیر و حاکم و سلطاں تھے، دشمنان ِ رسول
تحفظ ِ حرم ودین ِ مصطفےٰ کے لیے
حسینؓ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے

حیا کانام مِٹا جارہا تھا دنیا سے
وفا کانام مٹا جارہا تھا دنیا سے
خُدا  کا نام مٹا جارہا تھا دنیا سے
حرم کی حُرمت و تقدیس کی بقا کے لئے
حسینؓ ہی کی ضرورت تھی کربلا کے لیے

بلّے صاحب کی ایک نظم ’آگ‘ ہے جو مسجدِ اقصیٰ کی آتشزدگی کے سانحے پر اگست 1969 میں انہوں نے اپنےاشکوں میں قلم کوڈبو کر لکھی تھی ۔اس نظم میں ان کے جذبات کے بہاؤ کے ساتھ ساتھ رُلا دینے والے الفاظ کاچناؤ دیدنی ہے ۔اس تڑپا دینے والی خوبصورت نظم کے چند بند آپ بھی پڑھئیے ۔اور میرے اس تاثر کی تائید فرمائیے  کہ دل میں اتر جانے والی شاعری ایسی ہوتی ہے۔
نظم کا عنوان ہے آگ اور سید فخرالدین بلے صاحب نے یہ مسجد اقصیٰ کی آتشزدگی سے متاثر ہوکر لکھی تھی۔ نصف صدی سےزیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود لگتا ہے کہ یہ نظم آج ہی تخلیق کی گئی ہے ۔ بہرحال آپ ملاحظہ کیجئے ، اس شاہکار نظم آگ کا ایک بند ، آپ کو پڑھتے ہوئے بھی شعلوں کی آنچ دل کوجھلساتی محسوس ہوگی۔

قرآں سے دھواں سا اٹھتا ہے اور عرشِ بریں تھراتا ہے
اللہ! وفورِ غیرت سے نبیوں کو پسینہ آتا ہے
وہ قبلہ ٔ اوّل منزل تھی معراج کی شب جو احمد کی
وہ مسجد ِ اقصیٰ جلتی ہے، ایمان شہادت پاتا ہے
وہ تین سو تیرہ تھے جن سے تقدیر اُمم تھراتی تھی
ہم پون ارب ہیں جن کا سر ہر گام پہ جھکتا جاتا ہے

سید فخرالدین بلے نے اپنے ایک دوست کی سالگرہ پر تحفہ بھیجنے کے موقع پر ایک نظم لکھی اور اپنا دل کھول کر بیان کردیا۔ اس نظم کاعنوان ہے سالگرہ کاتحفہ ۔

میں تیری سالگرہ پر اے دوست
یہ بتا ؟کون سا تحفہ بھیجوں
مری خواہش تویہی ہے کہ تِری دعوت پر
سر کے بل چل کے میں خود جاؤں، جنم دن پہ تِرے
ایک دلہن کی طرح تجھ کو سجانے کے لیے
تیری خوابیدہ امنگوں کو جگانے کے لیے
عید ِ میلاد کی اِک رسم سمجھ کر اس کو
بالارادہ تجھے سینے سے لگانے کے لیے

یہ ایک طویل نظم ہے ۔ اور اس کےحیران کردینے والے کلائیمیکس کےتو کیا کہنے۔
کوئٹہ کی برف باری سے متاثر ہو کرسید فخرالدین بلے نے بڑی معرکۃ الآرا نظم کہی ۔فیض احمد فیض اور جوش ملیح آبادی ادبی محفلوں میں فرمائش کرکے ان سے یہ نظم باران ِ کرم سنا کرتے تھے  :

گردوں سے برستے ہوئے یہ برف کے گالے
تنتے ہوئے ہر سمت ہر اک چیز پہ جالے
دُھنکی ہوئی روئی کی طرح صاف شگفتہ
شفاف، سبک، نازک و خود رفتہ و خستہ
رخشندہ و تابندہ و رقصندہ جوانی
یہ برف کی بارش ہے کہ پریوں کی کہانی
دو شیزگی ٔ شام  و سحر کے یہ سنبھالے
چھائے ہوئے بکھرے ہوئے ہر سمت اجالے
چاندی میں نہائے ہوئے ہیں یہ کوہ و بیاباں
ہے عام بہ عنوان ِطرب زیست کا ساماں
انوار کا ٹیکہ ہے پہاڑوں کی جبیں پر
غالیچہ ٔ سیمیں ہے بچھا ہے جو زمیں پر
موتی ہیں کہ دامن میں کوئی رول رہا ہے
جو بن کے ترازو میں سحر تول رہا ہے
ہر برگ و شجر رشک ِتن ِ یا سمنی ہے
صحن و در و دیوار پہ کیا سیم تنی ہے
گوعارضی بخشش سہی ، فطرت کی یہ چھل ہے
ہر ایک مکاں آج یہاں تاج محل ہے
شوخئ مناظر میں نظر کھوئی ہوئی ہے
زانوے شبستاں پہ سحر ہوئی ہے
چمپا سے، چنبلی سے ہر اک زلف گندھی ہے
ہر  ایک سر ِ کوہ پہ دستار بندھی ہے
چشمے پہ یا جیسے کوئی مہناز نہا کر
بیٹھی ہے بصد ناز اداؤں کو چرا کر
ہے وادی ٔ بولان میں حوروں کا بسیرا
ہر گام پہ حانی نے لگا رکھا ہے ڈیرا
چاندی کا کٹورا ہے، سر ِآب پڑا ہے
بلور کا ساغر ہے کہ صہبا سے بھرا ہے
ہر ذرے سے جوبن کی کرن پھوٹ رہی ہے
انوار سے ظلمت کی کمر ٹوٹ رہی ہے
ہیں کوثر و تسنیم بھی، ساقی بھی ہے، مئے بھی
ہے ساز بھی، مضراب بھی، آواز بھی،لے بھی
مطلوب بھی موجود ہے، طالب بھی طلب بھی
پائل بھی ہے، جھنکار بھی، مطرب بھی، طرب بھی
منظر بھی ہے ، منظور بھی ، ناظر بھی، نظر بھی
ہے ناز بھی ، انداز بھی ، انداز ِ دگر بھی

ہیں ارض و سما کوں و مکاں نورمیں غلطاں
بارانِ کرم ہے کہ اترتا ہوا قرآں 
ہر  منظر پر کیف پہ جنت کا گماں ہے
سڑکوں پہ پڑی برف ہے یا کاہ کشاں ہے
ہر ذرہ ہے مہتاب، ہر اک ذرہ ہے خورشید
ہے برف کہ اک جشن ِ جہاں تاب کی تمہید
اس برف سے رعنائی و شوخی ٔ گل ِ تر
یہ برف ہے پیشانی ٔ بولان کا جھومر
یہ برف بلوچوں کی دعاؤں کا ثمر ہے
یہ برف  نہیں، فصل ِبہاراں کی خبر ہے
اس برف سے مہوش تری تصویر بناؤں
بت ساز ہوں اور صنم دل میں بٹھاؤں
ڈرتا ہوں مگر برف پگھل جائے گی اک دن
گرمیٔ حوادث سے یہ گل جائے گی اک دن

باران کرم میں انہوں نے برف باری کے مثبت رخ دکھائے ہیں ۔ لیکن اسی برف باری کے بعد جب تیز ہوائیں چلنا شروع ہوئیں تو انہوں نے تصویر کادوسرا رخ بھی شعروں کی زبان میں بیان کردیا ۔ اوراپنی اس نظم کو ہنگامِ محشر کانام دیا ۔ تصویر کایہ رخ بھی بڑا شاندار ہے ۔اوراتنا توانا ہے کہ سننے  یا پڑھنے والا ان کی منظر نگاری کوداد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا۔فراق گورکھپوری نےکئی دہائیوں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ سید فخرالدین بلے الفاظ سے رنگوں کاکام لینا جانتے ہیں اور وہ شعری دنیا میں لفظوں کے مصور ہیں۔افتخار عارف سید فخرالدین بلے کے منقبتی کلام کے مداح ہیں ۔اورانہوں نے اپنے مضمون میں ان کی شخصیت ، شاعری اور فن کے بہت سے امتیازی پہلووں کو بھرپورانداز میں خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ جوش ملیح آبادی بھی اکثرکہاکرتے تھے کہ سیدفخرالدین بلے کی شاعری میں ادب، تاریخ اور تصوف کاگہرا مطالعہ بولتا اورسوچ کےدر کھولتا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔اب آپ بلے صاحب کے دو خوبصورت قطعات ملاحظہ کریں، جو زیرنظر تالیف سید فخرالدین بلے ۔ ایک آدرش ۔ ایک انجمن کی زینت ہیں ۔پہلا قطعہ شہیدان ِ کربلا کےنام ہے ۔

سوفار سے چھدے ہوئے سینوں سے پوچھئے
معصوم پر چلے ہوئے تیروں سے پوچھئے
مومن کو دیں عزیز ہے یا زندگی عزیز
میدانِ کربلا کے شہیدوں سے پوچھئے

دوسرا قطعہ :

میخانے سے رشتہ چھوٹ گیا
ساقی سے تعلق ٹوٹ گیا
ہاتھوں کا پیالہ یاد نہیں
خود پھوڑ دیا یا پھوٹ گیا

اس الیکٹرو نک  کتاب سید فخر الدین بلّے: ایک آدرش، ایک انجمن کے شاعری پر مبنی دوسرے حصے میں ان کی بہت سی غزلیں ،خوبصورت نظمیں اوردیگر شعری نگارشات دامن دل و نگاہ کو تھامتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں ۔کتاب کے پہلے حصے میں بلّے صاحب کی شخصیت کے کئی پہلو اجاگر ہوئے ہیں ۔ نامور ادیبوں ، شاعروں،نقادوں اور دانشوروں نے انہیں کثیرالوصف اور ہمہ جہت شخصیت قراردیا ہے ۔ ان کی علمی ادبی اورثقافتی خدمات کوبھی اجاگر کیا ہے ۔ یہ بھی بتایا ہے کہ انہوں نے اردو، انگریزی، فارسی ، ہندی اور سنسکرت میں جو تالیفات اور مطبوعات مرتب کیں ، ان کی تعداد ڈیڑھ سو کے لگ بھگ ہے اور وہ پندرہ سےزیادہ جرائد  کے بانی چیف ایڈیٹر یا ایڈیٹر رہے ۔ قوالی کے باب میں امیر خسرو کے بعد نیا قول ترانہ اور رنگ تخلیق کرکے بھارت اور پاکستان میں تہلکہ مچاڈالا۔ ملتان میں 25روزہ جشن تمثیل سجانے پر انہیں مین آف دا اسٹیج اور محسن فن کے خطابات سے نوازا گیا۔بلاشبہ مبارک باد کے مستحق ہیں۔ہندو پاک کے وہ مشاہیر ادب ،جنہوں نے اس کتاب کو ترتیب دیا ہے، منفرد نوعیت کی یہ ای بک بلا شبہ اردو ادب میں گراں قدر اضافہ اور نئی نسل کے لیے مشعل راہ ہے۔میں آخر میں سید فخرالدین بلے ہی کا ایک شعر بلے صاحب کی نذر کرنا چاہتی ہوں کیونکہ اپنے تجزئیے اور تبصرے کے اختتام پر میرے پاس کہنے کو اور کچھ نہیں:

الفا ظ و صوت و رنگ و تصور کے روپ میں
زندہ ہیں لوگ آج بھی مرنے کے باوجود

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment