اسرار الحق مجاز ۔۔۔ کمالِ عشق ہے دیوانہ ہو گیا ہوں مَیں

کمالِ عشق ہے دیوانہ ہو گیا ہوں مَیں یہ کس کے ہاتھ سے دامن چھڑا رہا ہوں مَیں تمھی تو ہو جسے کہتی ہے ناخدا دنیا بچا سکو تو بچا لو کہ ڈُوبتا ہوں مَیں یہ میرے عشق کی مجبوریاں معاذ اللہ تمھارا راز تمھی سے چھپا رہا ہوں مَیں اس اِک حجاب پہ سو بے حجابیاں صدقے جہاں سے چاہتا ہوں تم کو دیکھتا ہوں مَیں بتانے والے وہیں پر بتاتے ہیں منزل ہزار بار جہاں سے گزر چکا ہوں مَیں کبھی یہ زعم کہ تو مجھ سے چھپ…

Read More

دشمنوں کے درمیان شام ۔۔۔۔ منیر نیازی

دشمنوں کے درمیان شام   پھیلتی ہے شام دیکھو ڈوبتا ہے دن عجب آسماں پر رنگ دیکھو ہو گیا کیسا غضب کھیت ہیں اور  ان میں اک روپوش سے دشمن کا شک سرسراہٹ سانپ کی گندم کی وحشی گر مہک اک طرف دیوار و در اور جلتی بجھتی بتّیاں اک طرف سر پر کھڑا یہ موت جیسا آسماں

Read More

غالب

چار موج اُٹھتی ہے طوفانِ طرب سے ہر سُو موجِ گل، موجِ شفق، موجِ صبا، موجِ شراب

Read More

پہلی دُھوپ ۔۔۔۔ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے شعراء کا منتخب کلام (1997ء)

پہلی دھوپ ۔۔۔۔ انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور کے شعراء کا منتخب کلام DOWNLOAD

Read More

آج، سب ایک جگہ پر ۔۔۔۔۔۔۔۔ راجیندر منچندا بانی

وقت کے آنگن میں لاکھوں خستہ پا ایّام اوندھے منہ پڑے ہیں حادثے اب ڈھونڈتے پھرتے ہیں ان لمحات کو جن سے رشتہ جوڑنا مشکل نہ تھا آج، ہے ساری فضا کا چہرہ خالی آج، بستی کے کسی نظاّرے کو اظہار کی خواہش نہیں ہے آج، پربت سے کوئی پتھر لڑھکتا ہی نہیں ہے آج، ہر جھونکا ہوا کا اس طرح سہما ہوا ہے ایک بھی چیونٹی کے پر ہلتے نہیں ہیں! آج ۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔۔۔ سارے پرندے چیختے ہیں خشک پیڑوں کی کھلی بانہوں میں اک زیور نہیں ہے…

Read More

رحمان حفیظ

پوچھ مت نارسادعاؤں کی دیکھ تنویر کہکشاؤں کی بے زمیں راستے ہوئے آباد اْڑ گئی نیند دیوتاؤں کی آسماں ہے کہ چادرِ تخیل کہکشاں ہے کہ دْھول پاؤں کی اک تماشائی اور دس کردار ایک تمثیل دھوپ چھاؤں کی ہے تحرّک میں ایک اک محور سانس پھولی ہے سب دشاؤں کی قرض باقی ہے ابتداؤں کا جستجو بھی ہے انتہاؤں کی آنکھوں آنکھوں میں گفتگو کیجے کٹ چْکی ہے زباں صداؤں کی ہم کہ سورج سے دل لگا بیٹھے اور سورج نے کس پہ چھاؤں کی!

Read More

احمد ندیم قاسمی ۔۔۔ درِ کسریٰ پہ صدا کیا کرتا

درِ کسریٰ پہ صدا کیا کرتا اِک کھنڈر مجھ کو عطا کیا کرتا جس اندھیرے میں ستارا نہ جلے ایک مٹی کا دیا کیا کرتا ریت بھی ہاتھ میں جس کے نہ رُکی وہ تہی دست، دعا کیا کرتا ڈھب سے جینا بھی نہ آیا جس کو اپنے مرنے کا گلہ کیا کرتا اس کا ہونا ہے مرے ہونے سے میں نہ ہوتا تو خدا کیا کرتا تو نے کب مجھ کے دیے میرے حقوق میں ترا فرض ادا کیا کرتا ایک دُھتکار تو جھولی میں پڑی تو نہ ہوتا…

Read More

یزدانی جالندھری

ساحل سے رابطہ ہی نہیں ٹوٹتا کبھی کیسے سمندروں میں اُتارے گئے ہیں ہم

Read More

ہابیل کی موت …… ڈاکٹر توصیف تبسم

ہابیل کی موت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمیں پہلے خاکستری تھی پھر اس نے کئی رنگ اوڑھے کبھی شنگرفی، قرمزی، لاجوردی، کبھی چشمِ محبوب سا آب گوں، نیلے پانی میں کھلتے کنول سا ! سبھی رنگ اچھے تھے اور یہ زمیں سنہرے، روپہلے کئی حاشیوں میں جڑی ایک تصویر تھی وہ تصویر اب خاکِ بے مہر پر ٹکڑے ٹکڑے پڑی ہے! تو پھر دست ِ قاتل کہاں ہے؟ بس اک رنگ ہے، انگلیوں سے ٹپکتے لہو کا، جو دن رات کے ادھ جلے اور سادہ ورق پر، لگاتار مہریں لگاتا چلا جا رہا…

Read More

میر حسن ۔۔۔۔ غیروں کا تو ڈرکیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا

غیروں کا تو ڈرکیا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا خطرہ مجھے تیرا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا اظہارِ خموشی میں ہے سو طرح کی فریاد ظاہر کا یہ پردا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا آئینہ ہی جب ہو نہ تو کیا طوطی ہو گویا سارا سبب اس کا ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا کچھ بات اگر تجھ سے کہوں میں تو غضب ہو اس پر تو یہ غصہ ہے کہ میں کچھ نہیں کہتا کیا پوچھے ہے مجھ سے مری خاموشی کا باعث کچھ تو سبب…

Read More