سعادت سعید … کل علمِ کائناتِ سلائف  کے فیلسوف

کل علمِ کائناتِ سلائف  کے فیلسوف مجھ کو تو لگ رہے ہیں غفائف کے فیلسوف ارضِ خیالِ بے سرو پائی کا اسم ہیں اوصافِ مہملاتِ شرائف کے فیلسوف لفظوں سے اُن کا واسطہ شاید نہیں رہا حرفوں کو جانتے ہیں حرائف کے فیلسوف لینے لگے ہیں جاگتے خوابوں کی لذتیں پریاں سلا رہی ہیں لحائف کے فیلسوف ہر  روز ذبح کرتے ہیں پُرشوق مرغیاں موجِ گمانِ کبرِ نوائف کے فیلسوف کرتے ہیں لوٹ مار کی کھل کر حمایتیں عہدے بٹورنے کو شرائف  کے فیلسوف کہتے ہیں اپنے آپ کو مر…

Read More

محمد حنیف … زور سے میرے بھائی دے آواز

زور سے میرے بھائی دے آواز تا کہ سب کو سنائی دے آواز اب مرا لوٹنا نہیں ممکن چاہے ساری خدائی دے آواز کتنی حساس ہیں مری آنکھیں مجھے سن کر دکھائی دے آواز لاؤ رختِ سفر مرا کہ مجھے پربتوں کی ترائی دے آواز یہ ترے کان بج رہے ہیں حنیفؔ یہ جو اُس کی سنائی دے آواز

Read More

اظہر فراغ… صرف اس کی دکان چل رہی ہے

taza صرف اس کی دکان چل رہی ہےتیز جس کی زبان چل رہی ہے یہ ہوا دشت کی نہیں لگتیجس قدر بے نشان چل رہی ہے کون حائل ہو اس کے رستے میںیوں سمجھئے چٹان چل رہی ہے راہ سے ہٹنا چاہتی ہو گیراہ کے درمیان چل رہی ہے آپ بیتی میں کیسا رد و بدلکون سا داستان چل رہی ہے

Read More

شاہد اشرف… اس طرح شہری گھروں میں خوف سے بیٹھے ہوئے ہیں

اس طرح شہری گھروں میں خوف سے بیٹھے ہوئے ہیںجیسے زنداں میں سزائے موت کے قیدی پڑے ہیں جب کوئی باہر نکلنا چاہتا ہے گھر سے اپنےچار جانب سے کئی نا دیدہ خدشے دیکھتے ہیں جاگتے میں دیکھ لوں گا, تم اگر سونے نہ دو گےخواب تکیے پر جو میرے قابلِ ضبطی رکھے ہیں سر اُٹھائے بیل اپنے دھیان میں چھت پر چلی تودیکھ کر کھڑکی کھلی کمرے میں کچھ پھول آ گئے ہیں ماسک مجبوری کو چہرے پر عیاں ہونے نہ دے گاباوجود اس کے کشادہ دل کھلے بازو…

Read More