اصغر گورکھپوری ۔۔۔ چلتے چلتے رک جاتا ہے

چلتے چلتے رک جاتا ہے دیوانہ کچھ سوچ رہا ہے اس جنگل کا ایک ہی رستہ جس پر جادو کا پہرا ہے دور گھنے پیڑوں کا منظر مجھ کو آوازیں دیتا ہے دم لوں یا آگے بڑھ جاؤں سر پر بادل کا سایا ہے اس ظالم کی آنکھیں نم ہیں پتھر سے پانی رستا ہے بھیگا بھیگا صبح کا آنچل رات بہت پانی برسا ہے

Read More

افتخار شاہد ۔۔۔ دو غزلیں (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023 )

ہم لوگ ندیدے ہیں شجر کاٹ رہے ہیں جو صابر و شاکر ہیں ثمر کاٹ رہے ہیں یوں دوسری چاہت کا ارادہ تو نہیں تھا ہم پہلی محبت کا اثر کاٹ رہے ہیں ہم کیسے بتائیں کہ ترے ہجر کا عرصہ کٹتا بھی نہیں ہم سے مگر کاٹ رہے ہیں پہلے تو یہ در بھی اسی دیوار سے نکلے اب یوں ہے کہ دیوار کو در کاٹ رہے ہیں اے کاش کوئی آ کے ہمیں یہ تو بتائے ہم ڈوب رہے ہیں کہ بھنور کاٹ رہے ہیں اک عمر سے…

Read More

افضل ہزاروی ۔۔۔ دو غزلیں (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023 )

تنہائی کا ڈر نہیں جاتا اس لئے اب میں گھر نہیں جاتا سوچ میں تیری مَری بسی ہے ذہن سے میرے تھر نہیں جاتا کارِ جنوں میں دشت کو جائے رستہ کوئی گھر نہیں جاتا جان نہ چھوڑیں دل کی جھمیلے جب تک انساں مر نہیں جاتا جب وہ رو کے ہُوا تھا رخصت ذہن سے وہ منظر نہیں جاتا کیسے افضل شاد رہے دل سجدے میں جب سر نہیں جاتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسا بھی اک منظر دیکھا گھائل ہم نے پتھر دیکھا دریاؤں میں آب کا فقداں اور کھیتوں کو…

Read More

راحت سرحدی ۔۔۔ میں جو ذرا ہنس گا لیتا ہوں (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023 )

میں جو ذرا ہنس گا لیتا ہوں اس دنیا کا کیا لیتا ہوں پی کر تھوڑی دیر غموں سے اپنی جان چھڑا لیتا ہوں آئینے سے باتیں کر کے دل اپنا بہلا لیتا ہوں تنہائی میں بیٹھے بیٹھے اپنے آپ کو پا لیتا ہوں میں دانستہ بھی اپنوں سے دھوکہ شوکا کھا لیتا ہوں گر ہو اجازت تھوڑا تیرے سائے میں سستا لیتا ہوں کاٹے سے کٹتی نہیں راحت جس شب خود کو آ لیتا ہوں

Read More

نائلہ راٹھور ۔۔۔ خواب بس زندگی سے ہوتے ہیں (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023 )

’’سلسلے تو سبھی سے ہوتے ہیں‘‘ خواب بس زندگی سے ہوتے ہیں تم نے سمجھا ہے غیر اچھا ہے رشتے کب ہر کسی سے ہوتے ہیں کیا کہا ہم بھی بھول جائیں گے کام بس یہ تمہی سے ہوتے ہیں اشک آنکھوں میں آ گئے ہیں کیوں رابطے دل لگی سے ہوتے ہیں وقت آخر گزر ہی جاتا ہے دکھ تو وابستگی سے ہوتے ہیں تم نے چھوڑا کہ میں نے چھوڑا ہے فیصلے کچھ خوشی سے ہوتے ہیں کاش کچھ تم نے بھی کہا ہوتا فاصلے ان کہی سے…

Read More

انصر حسن ۔۔۔ بتانا تھا جِنھیں ان کو بتا کر میں نکل آیا (ماہنامہ بیاض لاہور 2023 )

بتانا تھا جِنھیں ان کو بتا کر میں نکل آیا کئی ہنستے ہوئے چہرے رلا کر میں نکل آیا وہ جس معصوم خواہش نے مجھے جینا سکھایا تھا اسی معصوم خواہش کو دبا کر میں نکل آیا میں جس کی مان جاتا تھا ، جو رستا روک لیتی تھی اسے بھی آج رستے سے ہٹا کر میں نکل آیا کہاں ہے ناشتہ میرا ؟ کدھر کپڑے گئے میرے ؟ ابھی چائے بناؤ گی ؟ نہا کر میں نکل آیا کسی کا آج بھی میرے دماغ و دل پہ قبضہ ہے…

Read More

شفقت حسین شفق ۔۔۔ ساحل سمندروں کی حفاظت پہ ڈٹ گئے (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023 )

ساحل سمندروں کی حفاظت پہ ڈٹ گئے پھر اشک میری آنکھ کے اندر سمٹ گئے میں بدنصیب شخص فقط منتظر رہا حصے مرے کے ابر کہیں اور چھٹ گئے مشکل سے ڈھونڈ لایا تھا اک چاند کی کرن تارے حواس باختہ ہو کر پلٹ گئے ہر سمت تیرگی ہے اجالوں کے باوجود روشن تو ہیں چراغ مگر لو سے ہٹ گئے شورِ جہاں میں ہم کو تری جستجو رہی جس سے سنا تمہارا اسی سے لپٹ گئے ہر درد کی دوا ہے مگر عشق کی نہیں میں تھا اسیرِ عشق…

Read More

مستحسن جامی ۔۔۔ دو غزلیں (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023 )

ہمارے حجرے میں مخفی نعمت چراغ کی ہے وہ اس لئے ہے کہ اب ضرورت چراغ کی ہے اگر ہو ممکن ، جدھر بھی موقع ملے سمیٹو جہاں میں سب سے زیادہ برکت چراغ کی ہے ازل سے دیکھا ہر اک زمان و مکان اس نے جُدا زمانے میں یوں بصارت چراغ کی ہے میں گہرے جنگل کی وحشتوں سے اگر بچا ہوں یقین کیجے یہ ساری ہمت چراغ کی ہے منا رہا ہوں بہت عقیدت سے آج گھر میں خوشی سے رقصاں ہوں کہ ولادت چراغ کی ہے مرے…

Read More

زبیر خیالی ۔۔۔ وہ اضطراب کا منظر عجیب لگتا ہے (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023 )

وہ اضطراب کا منظر عجیب لگتا ہے پرندہ قید کے اندر عجیب لگتا ہے اگلنے لگتا ہے ساحل پہ شام کو سب کچھ اسی ادا پہ سمندر عجیب لگتا ہے عجب نہیں جو کفایت شعار ہو مفلس بخیل ہو جو تونگر عجیب لگتا ہے جنوں پہ عقل کو دیتا ہے جب کوئی سبقت وہ فہمِ خام کا پیکر عجیب لگتا ہے نہیں ہے آپ سے میرا موازنہ کوئی بشر خدا کے برابر عجیب لگتا ہے ذرا بھی تجھ سے توقع نہیں مجھے جس کی وہ لفظ تیری زباں پر عجیب…

Read More

مرتضیٰ برلاس ۔۔۔ ہے ادھر پھر وہی شب خوں کا ارادہ برلاس (ماہنامہ بیاض لاہور، اکتوبر 2023 )

ہے ادھر پھر وہی شب خوں کا ارادہ برلاس اور ادھر مشغلۂ بربط و بادہ برلاس پہلے بھی ایسی ہی شب تھی کہ قیامت ٹوٹی پھر وہی رت، وہی منزل، وہی جادہ برلاس کیا اثر اس پہ ہو اعجازِ مسیحائی کا جس کے جینے کا نہ ہو اپنا ارادہ برلاس اپنے ملبوسِ دریدہ کو چھپانے کے لیے پہنے پھرتے ہو تصنع کا لبادہ برلاس جن کو قربان کریں شاہ بچانے کے لیے ہم ہیں اس بازی میں یوں جیسے پیادہ برلاس تنگ دل تنگ نظر لاکھ ہوں دنیا والے تم…

Read More