مستحسن جامی ۔۔۔ دو غزلیں (ماہنامہ بیاض لاہور اکتوبر 2023 )

ہمارے حجرے میں مخفی نعمت چراغ کی ہے
وہ اس لئے ہے کہ اب ضرورت چراغ کی ہے

اگر ہو ممکن ، جدھر بھی موقع ملے سمیٹو
جہاں میں سب سے زیادہ برکت چراغ کی ہے

ازل سے دیکھا ہر اک زمان و مکان اس نے
جُدا زمانے میں یوں بصارت چراغ کی ہے

میں گہرے جنگل کی وحشتوں سے اگر بچا ہوں
یقین کیجے یہ ساری ہمت چراغ کی ہے

منا رہا ہوں بہت عقیدت سے آج گھر میں
خوشی سے رقصاں ہوں کہ ولادت چراغ کی ہے

مرے قبیلے نے روشنی سے وفا سمیٹی
سو میرے ذمہ فقط حفاظت چراغ کی ہے

بپھرتے طوفان میں بھی جلتا رہا ہے شب بھر
ہوا کے چہرے پہ کیسی ہیبت چراغ کی ہے

دیے کی لو کا ہر ایک لب پہ جو تذکرہ ہے
مری سمجھ میں تو یہ بھی نصرت چراغ کی ہے

ہر ایک گھر میں ہر ایک چہرے پہ روشنی ہو
ازل سے جامی یہی وصیت چراغ کی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رہ لوں گا بھلے دُنیا میں خشکی ہو تری ہو
بس یہ نہیں چاہوں گا مجھے تیری کمی ہو

جتنا بھی مناسب ہو ، اُسے اور ہوا دے
وہ شخص جسے آگ محبت کی لگی ہو

ہر پھول ترنم بھری آغوش سے نکلے
تتلی کے لبوں پر کوئی موہوم ہنسی ہو

ہر وقت ہر اک سانس مرے حجرئہ جاں میں
اک تُو ہو ، محبت ہو ، تری جلوہ گری ہو
آواز دلِ زرد سے آتی ہی رہے گی
شاید تجھے ادراک محبت کا کبھی ہو

اقدار کی تدفین کسی طور نہ کرنا
زندہ ہے وہی شئے جو روایت سے جُڑی ہو

دُنیا کے فسادات کا کیا خوف ہے جامی
جب مرشدِ کامل ترا حق باھُو سخی ہو

Related posts

Leave a Comment