دوارکا داس شعلہ ۔۔۔ ذرا نگاہ اٹھاؤ کہ غم کی رات کٹے

ذرا نگاہ اٹھاؤ کہ غم کی رات کٹے نظر نظر سے ملاؤ کہ غم کی رات کٹے اب آ گئے ہو تو میرے قریب آ بیٹھو دوئی کے نقش مٹاؤ کہ غم کی رات کٹے شبِ فراق ہے شمعِ امید لے آؤ کوئی چراغ جلاؤ کہ غم کی رات کٹے کہاں ہیں ساقی‌ و مطرب کہاں ہے پیرِ حرم کہاں ہیں سب یہ بلاؤ کہ غم کی رات کٹے کہاں ہو مے کدے والو ذرا ادھر آؤ ہمیں بھی آج پلاؤ کہ غم کی رات کٹے نہیں کچھ اور جو…

Read More

احمد فراز ۔۔۔ ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ

ہر آشنا میں کہاں خوئے محرمانہ وہ کہ بے وفا تھا مگر دوست تھا پرانا وہ کہاں سے لائیں اب آنکھیں اسے کہ رکھتا تھا عداوتوں میں بھی انداز مخلصانہ وہ جو ابر تھا تو اسے ٹوٹ کر برسنا تھا یہ کیا کہ آگ لگا کر ہوا روانہ وہ پکارتے ہیں مہ و سال منزلوں کی طرح لگا ہے تو سنِ ہستی کو تازیانہ وہ ہمیں بھی غم طلبی کا نہیں رہا یارا ترے بھی رنگ نہیں گردشِ زمانہ وہ اب اپنی خواہشیں کیا کیا اسے رُلاتی ہیں یہ بات ہم نے…

Read More