اکرم سحر فارانی ۔۔۔ چھ ستمبر

ظُلمت کے جزیرے سے اَندھیروں کے رسالے
آئے تھے دبے پاؤں اِرادوں کو سنبھالے

دُشمن کے قدم کی جو پڑی کان میں آہٹ
جاگے تھے مری قوم کے خوابیدہ جیالے

توحید کے فرزند رسالت کے مجاہد
ٹیپو تھا کوئی اُن میں کوئی طارق و خالد

جب شوقِ شہادت میں بڑھی اُن کی سواری
شیشے کی طرح کٹ گئے پتھر کے پُجاری

گونجی تھی مجاہد کی اَذاں کھیم کرن میں
نصرت کی بہار آ گئی گُلزارِ وطن میں

رانی کے نشانے پہ گُمنڈی کا جہاں تھا
خود اپنی چِتَا بھارتی لشکر کا جواں تھا

افواج کا دُشمن کی سُلگتا ہوا سینہ
بھولا ہے نہ بھولے گا ستمبر کا مہینہ
سینچا تھا گُلستاں کو شہیدوں نے لہو سے
نکھری تھی نئی صبح محبت کی نمو سے

لِکھی تھی سحرؔ جس نے یہ تاریخِ ستمبر
اُس جذبۂ اِحرار کی ہیبت ہے عدو پَر

Related posts

Leave a Comment