لا کر کسی نے پھول جو رکھے ہیں ہجر میں کانٹے بچھا دیے ہیں ہمارے پلنگ پر
Read MoreMonth: 2019 اکتوبر
مسجدِ قرطبہ ۔۔۔۔ علامہ اقبال
مَسجدِ قُرطُبہ (ہسپانیہ کی سرزمین بالخصوص قُرطُبہ لکھی گئی) ………… سلسلۂ روز و شب، نقش گرِ حادثات سلسلۂ روز و شب، اصلِ حیات و ممات سلسلۂ روز و شب، تارِ حریرِ دو رنگ جس سے بناتی ہے ذات اپنی قبائے صفات سلسلۂ روز و شب، سازِ ازل کی فغاں جس سے دکھاتی ہے ذات زیر و بمِ ممکنات تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ سلسلۂ روز و شب، صیرفیِ کائنات تو ہو اگر کم عیار، مَیں ہوں اگر کم عیار موت ہے تیری برات، موت ہے میری…
Read Moreغالب ۔۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا
نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شِیر کا جذبہء بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے سینہء شمشیر سے باہر ہے، دم شمشیر کا آگہی، دامِ شنیدن جس قدر، چاہے بچھائے مدعا عنقا ہے، اپنے عالمِ تقریر کا شوخیء نیرنگ، صیدِ وحشتِ طائوس ہے دام، سبزے میں ہے ، پروازِ چمن تسخیر کا لذتِ ایجادِ ناز، افسونِ عرضِ ذوقِ قتل نعل، آتش میں ہے تیغِ یار سے، نخچیر کا…
Read Moreخمار بارہ بنکوی
زندگی اب نام کی ہے، دل کہیں، نظریں کہیں ہائے کیا شیرازہء برہم لیے جاتا ہوں مَیں
Read Moreایک مختصر کہانی ۔۔۔۔ عبدالرشید
ایک مختصر کہانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر پایا نہیں کچھ بھی تو ہم سے چِھن گیا کیا ہے یہ دردوں کی بدلتی کروٹوں کی اوٹ سے گرتے ہوئے سالوں کے ڈھیر اِنھیں ڈھیروں کی بوجھل گرد میں وہ دوست لمحے جب کسی اک نیم روشن چاند کے پہلو میں پہلے چاند کی کرنیں انڈیلی تھیں گلِ کوکب کی جھڑتی پتیوں کی باس میں وہ پہلا دن سپنا وہ سبزے کی رواں لہروں میں موسم رقص برپا، آنے والے روز و شب کا اور وہ پہلا کسیلا گھونٹ پیلی نفرتوں کا جیب میں…
Read Moreاقبال ساجد ۔۔۔۔۔ غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا
غار سے سنگ ہٹایا تو وہ خالی نکلا کسی قیدی کا نہ کردار مثالی نکلا چڑھتے سورج نے ہر اک ہاتھ میں کشکول دیا صبح ہوتے ہی ہر اک گھر سے سوالی نکلا سب کی شکلوں میں تری شکل نظر آئی مجھے قرعۂ فال مرے نام پہ گالی نکلا راس آئے مجھے مرجھائے ہوئے زرد گلاب غم کا پرتَو مرے چہرے کی بحالی نکلا کٹ گیا جسم مگر سائے تو محفوظ رہے میرا شیرازہ بکھر کر بھی مثالی نکلا رات جب گزری تو پھر صبح حنا رنگ ہوئی آسماں جاگی…
Read Moreحزیں صدیقی…. دشتِ امکاں طے کرے تنہا کوئی
دشتِ امکاں طے کرے تنہا کوئی لاؤ میرے سامنے مجھ سا کوئی جاں بلب ہے دشت میں پیاسا کوئی مالکِ ابر و ہوا! چھینٹا کوئی جب ہٹی در سے نگاہِ منتظر بن گیا دیوار پر چہرہ کوئی دیکھتے کیا، سانس لینا تھا محال اس قدر نزدیک سے گزرا کوئی خواب ہی میں خواب کی تعبیر تھی بند آنکھوں سے نظر آیا کوئی جب بھی مَیں اپنے تعاقب میں چلا پیچھے پیچھے چل پڑا سایہ کوئی ہوں گے کانٹے بھی ریاضِ دہر میں میرے دامن سے نہیں الجھا کوئی
Read Moreجعفر بلوچ
اپنے چہروں کے داغ دھو نہ سکے آئنوں پر برس رہے ہیں لوگ
Read Moreقلندر بخش جرات
اب بھی آنا ہے تو آ، ورنہ میاں! یہ بھی سامان نہیں رہنے کا
Read Moreخالد علیم ۔۔۔
جب قریہ قریہ گرم لہو کی دھار گئی اک وحشت خیز صدا سینوں کے پار گئی اک درد کی گونج سے دل کا مکان لرز اٹھا اور سناٹے کی چیخ سرِ بازار گئی اک مات کو جیت بنانے گھر سے نکلے تھے پر دشت ِ سفر کی وحشت ہم کو مار گئی اب شامیں صبحوں کی دہلیز پہ بیٹھی ہیں اب اس بستی سے چڑیوں کی چہکار گئی جب جا کے اُفق کی جھیل میں سورج ڈوب گیا تب شہر بہ شہر ستاروں کی للکار گئی کل رات کے پچھلے…
Read More