اسداللہ خاں غالب ۔۔۔ نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا

نقش فریادی ہےکس کی شوخئ تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا بس کہ ہوں غالب، اسیری میں بھی آتش زیِر پا موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

Read More

غالب ۔۔۔۔ نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا

نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا کاوکاوِ سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شِیر کا جذبہء بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے سینہء شمشیر سے باہر ہے، دم شمشیر کا آگہی، دامِ شنیدن جس قدر، چاہے بچھائے مدعا عنقا ہے، اپنے عالمِ تقریر کا شوخیء نیرنگ، صیدِ وحشتِ طائوس ہے دام، سبزے میں ہے ، پروازِ چمن تسخیر کا لذتِ ایجادِ ناز، افسونِ عرضِ ذوقِ قتل نعل، آتش میں ہے تیغِ یار سے، نخچیر کا…

Read More