سپرد ہیں ہر کسی کو احوال اپنے اپنے اٹھائے پھرتے ہیں ہم مہ و سال اپنے اپنے کسی کو کیا فیض دے یہاں رہبری کسی کی لئے پھریں ہر کسی کو جنجال اپنے اپنے نشاط لمحوں کو صید کرنے کی آرزو میں بچھائے بیٹھے ہیں سب یہاں جال اپنے اپنے جدا جدا ہر کسی کی پرواز کا زمانہ لہو،فضا،آسماں ،پر و بال اپنے اپنے جو دوسروں کی نگاہ کے آئنے نہ ہوتے تو دل کہاں ڈھونڈتے خد و خال اپنے اپنے
Read MoreMonth: 2024 مئی
جلیل عالی ۔۔۔ جدا جدا سب کے خواب تعبیر ایک جیسی
جدا جدا سب کے خواب تعبیر ایک جیسی ہمیں ازل سے ملی ہے تقدیر ایک جیسی سفر کٹھن ایک سا سبھی شوق راستوں کا وفا کے پائوں میں غم کی زنجیر ایک جیسی گزرتے لمحوں سے نقش کیا اپنے اپنے پوچھیں اِن آئنوں میں ہر ایک تصویر ایک جیسی تری شرر باریوں مری خاکساریوں کی ہوا کبھی تو کرے گی تشہیر ایک جیسی یہ طے ہوا ایک بار سب آزما کے دیکھیں نجاتِ قلب و نظر کی تدبیر ایک جیسی دلوں کے زمزم سے دھل کے نکلی ہوئی صدائیں سماعتوں…
Read Moreدیباچہ ’’خواب دریچہ‘‘ ۔۔۔ احمد ندیم قاسمی
پیش گفتار جلیل عالی نے اپنے دل کی لوح پر سچائی کا اسم روشن کر رکھا ہے۔یہ اس کے اپنے الفاظ ہیں مگر خود ستائی سے مبرا،اس لئے سچے اور دیانت دارانہ ہیں۔اس نے مرئی اور ظاہری سچائیوں پر ہی اکتفا نہیں کیابلکہ ڈھکی چھپی سچائیوں کابھی کھوج لگایا ہے۔ان سچائیوں کو ہر جہت سے پرکھا اور برتا ہے۔ہر سچے شاعر کی طرح اس کی منزل بھی وہ آخری سچائی، وہ آخری صداقت یا وہ آخری حقیقت ہے، جس کے لئے انسان نے مہذب ہونا سیکھا ۔کون کہہ سکتا ہے…
Read Moreجلیل عالی ۔۔۔ افق پار سے کوئی دیتا صدائیں تو ہم کب ٹھہرتے
افق پار سے کوئی دیتا صدائیں تو ہم کب ٹھہرتے کبھی ساتھ لے کر نکلتیں ہوائیں تو ہم کب ٹھہرتے گزاری ہیں کتنی ہی طوفان راتیں گھروں میں سمٹ کر دمکتیں سرِ آسماں کہکشائیں تو ہم کب ٹھہرتے یہاں آندھیوں نے کہاں کوئی پرواز کی راہ چھوڑی ذرا بھی کہیں ساتھ دیتیں فضائیں تو ہم کب ٹھہرتے بلایا کئی آشنا موسموں نے ملن ساحلوں پر نہ دیوار بنتیں ہماری انائیں تو ہم کب ٹھہرتے زمانے کی برفاب رُت سے کہاں کشتیِ شوق رکتی اترتیں نہ اپنے لہو میں خزائیں تو…
Read Moreمدینے میں ۔۔۔ حفیظ الرحمٰن احسن
دل و نظر کا ٹھکانہ ہوا مدینے میں قرارِ روح جو رکھا گیا مدینے میں ہر ایک ذرّہ چمک اُٹھا خاکِ یثرب کا ہوا طلوع جو مہرِ حرا مدینے میں ملا حرم میں جسے صادق و امیں کا لقب بسا ہے آ کے وہی خوش ادا مدینے میں فضا لطیف ہے مثلِ صفاے آئینہ ہَواے خُلد ہے بادِ صبا مدینے میں صدائیں آج بھی سنتا ہوں خیر مقدم کی وہ آ گئے ہیں حبیبِ ؐ خدا مدینے میں ’’یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے‘‘ اک ایک لب پہ…
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ گیا تو باغ کا رشتہ فنا سے جوڑ گیا
گیا تو باغ کا رشتہ فنا سے جوڑ گیا وہ پیڑ پیڑ پہ آکاس بیل چھوڑ گیا سہاگ جن سے تھا منسوب لطفِ فردا کا کلائیاں ہیں کچھ ایسی بھی وہ مروڑ گیا اُسے عزیز تھا پرچار اپنے باطل کا سو جو بھی چشم تھی حق بِیں، اُسے وہ پھوڑ گیا جفا پرست وہ ایسا تھا جو خلافِ ستم دلوں میں عزم تھے جتنے اُنہیں جھنجھوڑ گیا رہا بھی اُس سے تو بس لین دین نفرت کا سو،لے کے لاکھ، ہمیں دے کے وہ کروڑ گیا
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ کیا خبر کیا کچھ کوئی دیکھے یہاں
کیا خبر کیا کچھ کوئی دیکھے یہاں کس کا نوحہ کون کب لکھے یہاں ظاہری عنوان: اِک دینِ مبیں اور اندر ہیں کئی شجرے یہاں سب کے سب خود کو جِلا دیتے رہے ہیں مسیحا جس قدر اُترے یہاں اپنی قامت پر قد آور سب خفیف ذی شرف ہیں سب کے سب بونے یہاں ہم سے جو کھیلے وہ ماجد اور ہے ہم سبھی ہیں تاش کے پتّے یہاں
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ کھیتیاں خشک اور آبیانے وہی
کھیتیاں خشک اور آبیانے وہی آج بھی جبر کے ہیں زمانے وہی خم وہی رہ بہ رہ نا مرادوں کے سر کُو بہ کُو ذی شرف آستانے وہی فاختائیں دبکتی شجر در شجر اور زور آوروں کے نشانے وہی رام کرنے کو مرکب کا زورِ انا دستِ راکب میں ہیں تازیانے وہی شیر کی دھاڑ پر جستجو اوٹ کی اور چھپنے کو ماجد ٹھکانے وہی
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ کھیت بھی اور حاصل ہے جسے سرداری بھی
کھیت بھی اور حاصل ہے جسے سرداری بھی ساتھ نہ دے کیونکر اُس کا پٹواری بھی خرقہ پوش ہیں شہر کی جو جو شَہراہیں دُور رہے اُن سے شہ کی اسواری بھی جس گوشے میں چاہے حرص کا مال سجے اُس جانب آ جاتے ہیں بیوپاری بھی
Read Moreماجد صدیقی ۔۔۔ کھو ہی جاؤں نہ کہیں میں، کہ ہوں مہ کا ہالا
کھو ہی جاؤں نہ کہیں میں، کہ ہوں مہ کا ہالا وقت، لگتا ہے کہ ’میرا‘ نہیں رہنے والا جس سے زیبا ہوں، وہ زیبائی ہے اب جانے کو ہے گلُو میں سے اُترنے کو، یہ جاں کی مالا تن بدن میں ہے مرے، کیسی یہ کھیتی باڑی میری رگ رگ میں اُتر آیا، یہ کیسا بھالا میں کہ خوشہ ہوں ، دعا کیسے یہ مانگوں اُلٹی میں نہ ،چکّی کا بنوں خاک و فلک کی ،گالا ڈھیل شاید نہ دے اب اور مجھے، چیخنے کی جسم میں ہے جو،…
Read More