قمر جلالوی ۔۔۔ آہ کو سمجھے ہو کیا دل سے اگر ہو جائے گی

آہ کو سمجھے ہو کیا دل سے اگر ہو جائے گی وہ تو وہ ان کے فرشتوں کو خبر ہو جائے گی پوری کیا موسیٰؑ تمنا طور پر ہو جائے گی تم اگر اوپر گئے نیچی نظر ہو جائے گی کیا ان آہوں سے شبِ غم مختصر ہو جائے گی یہ سحر ہونے کی باتیں ہیں سحر ہو جائے گی ؟ آ تو جائیں گے وہ میری آہِ پر تاثیر سے محفلِ دشمن میں رسوائی مگر ہو جائے گی کس سے پوچھیں گے وہ میرے رات کے مرنے کا حال…

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ بھلا اپنے نالوں کی مجھ کو خبر کیا شبِ غم ہوئی تھی کہاں تک رسائی

بھلا اپنے نالوں کی مجھ کو خبر کیا شبِ غم ہوئی تھی کہاں تک رسائی مگر یہ عدو کی زبانی سنا ہے بڑی مشکلوں سے تمہیں نیند آئی شبِ وعدہ اول تو آتے نہیں تھے جو آئے بھی تو رات ایسی گنوائی کبھی رات کو تم نے گیسو سنوارے کبھی رات کو تم نے مہندی لگائی گلہ بے وفائی کا کس سے کریں ہم ہمارا گلہ کوئی سنتا نہیں ہے خدا تم کو رکھے جوانی کے دن ہیں تمھارا زمانہ تمھاری خدائی ہر اک نے دیے میرے اشکوں پہ طعنے…

Read More

استاد قمر جلالوی

ایک جا رہنا نہیں لکھا میری تقدیر میں آج گر صحرا میں ہوں کل خانۂ زنجیر میں اقربا نا خوش وہ بزمِ دشمنِ بے پیر میں موت ہی لکھی ہی کیا بیمار کی تقدیر میں بات کر میری لحد پر غیر ہی سے بات کر یہ سنا ہے پھول جھڑتے ہیں تری تقریر میں سیکھ اب میری نظر سے حسن کی زیبائشیں سینکڑوں رنگینیاں بھر دیں تری تصویر میں پاسِ آدابِ اسیری تیرے دیوانے کو ہے ورنہ یہ زنجیر کچھ زنجیر ہے زنجیر میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں ان کو وہ…

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ عالم تجھ کو دیکھ رہا ہے کوئی کب پہچانے ہے

عالم تجھ کو دیکھ رہا ہے کوئی کب پہچانے ہے ذرے تک میں تو ہی تو ہے خاک زمانہ چھانے ہے چھاننے دو دیوانہ ان کا خاک جو در در چھانے ہے کوئی کسی کو کیا سمجھائے کون کسی کی مانے ہے میں اور مے خانے میں بیٹھا شیخ ارے ٹک توبہ کر مردِ خدا میں جانوں نہ تانوں مجھ کو تو کیوں سانے ہے مے خانے میں دنیا دنیا آئے دنیا سے کچھ کام نہیں جام اسی کو دے گا ساقی جس کو ساقی جانے ہے جام نہ دینے…

Read More

استاد قمر جلالوی

موسیٰ سے ضرور آج کوئی بات ہوئ ہے جاتے میں قدم اور تھے آتے میں قدم اور

Read More