قمر جلالوی ۔۔۔ آہ کو سمجھے ہو کیا دل سے اگر ہو جائے گی

آہ کو سمجھے ہو کیا دل سے اگر ہو جائے گی وہ تو وہ ان کے فرشتوں کو خبر ہو جائے گی پوری کیا موسیٰؑ تمنا طور پر ہو جائے گی تم اگر اوپر گئے نیچی نظر ہو جائے گی کیا ان آہوں سے شبِ غم مختصر ہو جائے گی یہ سحر ہونے کی باتیں ہیں سحر ہو جائے گی ؟ آ تو جائیں گے وہ میری آہِ پر تاثیر سے محفلِ دشمن میں رسوائی مگر ہو جائے گی کس سے پوچھیں گے وہ میرے رات کے مرنے کا حال…

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ بھلا اپنے نالوں کی مجھ کو خبر کیا شبِ غم ہوئی تھی کہاں تک رسائی

بھلا اپنے نالوں کی مجھ کو خبر کیا شبِ غم ہوئی تھی کہاں تک رسائی مگر یہ عدو کی زبانی سنا ہے بڑی مشکلوں سے تمہیں نیند آئی شبِ وعدہ اول تو آتے نہیں تھے جو آئے بھی تو رات ایسی گنوائی کبھی رات کو تم نے گیسو سنوارے کبھی رات کو تم نے مہندی لگائی گلہ بے وفائی کا کس سے کریں ہم ہمارا گلہ کوئی سنتا نہیں ہے خدا تم کو رکھے جوانی کے دن ہیں تمھارا زمانہ تمھاری خدائی ہر اک نے دیے میرے اشکوں پہ طعنے…

Read More

قمر جلالوی ۔۔۔ غلط ہے شیخ کی ضد ساقی محفل سے ٹوٹے گی

غلط ہے شیخ کی ضد ساقی محفل سے ٹوٹے گی قسم کھائی ہوئی توبہ بڑی مشکل سے ٹوٹے گی تمھیں رستے میں رہبر چھوڑ دیں گے قافلے والو اگر ہمت تمھاری دوریٔ منزل سے ٹوٹے گی نگاہِ قیس ٹکراتی رہے گی سارباں کب تک یہ بندش بھی کسی دن پردۂ محمل سے ٹوٹے گی غرورِ نا خدائی سامنے آ جائے گا اک دن یہ کشتی یک بہ یک ٹکرا کے جب ساحل سے ٹوٹے گی قمر اختر شماری کے لئے تیار ہو جاؤ کہ اب رسمِ محبت اس مہِ کامل…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ غزلیں

نہ روکی برق تو نے آشیاں بدلے چمن بدلےیہ کب کے لے رہا ہے ہم سے اے چرخِ کہن بدلےمحبت ہو تو جوئے شِیر کو اِک ضرب کافی ہےکوئی پوچھے کہ تو نے کتنے تیشے کوہکن بدلےسہولت اس سے بڑھ کر کارواں کو اور کیا ہو گینئی راہیں نکل آئیں پرانے راہزن بدلےہوا آخر نہ ہمسر کوئی ان کے روئے روشن کاتراشے گل بھی شمعوں کے چراغِ انجمن بدلےلباسِ نَو عدم والوں کو یوں احباب دیتے ہیںکہ اب ان کے قیامت تک نہ جائیں گے کفن بدلےقمر مابینِ عرش و…

Read More

حمد باری تعالیٰ ۔۔۔ استاد قمر جلالوی

حمد باری تعالیٰ سن سن کے مجھ سے وصف ترے اختیار کا دل کانپتا ہے گردش ِ لیل و نہار کا لاریب لا شریک شہنشاہِ کل ہے تو ! سر خم ہے تیرے در پہ ہر اک تاجدار کا محمود تیری ذات، محمدؐ ترا رسول  رکھا ہے نام چھانٹ کے مختارِ کار کا بنوا کے باغِ خلد ترے حکم کے بغیر شدّاد منہ نہ دیکھنے پایا بہار کا جاتی ہے تیرے کہنے سے گلزار سے خزاں آتا ہے تیرے حکم سے موسم بہار کا رزاق تجھ کو مذہب و ملت…

Read More

استاد قمر جلالوی ۔۔۔ یہاں تنگی ٔقفس ہے، وہاں فکرِ آشیانہ

یہاں تنگی ٔقفس ہے، وہاں فکرِ آشیانہ نہ یہاں مرا ٹھکانہ، نہ وہاں مرا ٹھکانہ   مجھے یاد ہے ابھی تک ترے جور کا فسانہ جو میں راز فاش کر دوں تجھے کیا کہے زمانہ   نہ وہ پھول ہیں چمن میں نہ وہ شاخِ آشیانہ فقط ایک برق چمکی کہ بدل گیا زمانہ   یہ رقیب اور تم سے رہ و رسمِ دوستانہ ابھی جس ہوا میں تم ہو وہ بدل گیا زمانہ   مرے سامنے چمن کا نہ فسانہ چھیڑ، ہمدم! مجھے یاد آ نہ جائے کہیں اپنا…

Read More

استاد قمر جلالوی

موسیٰ سے ضرور آج کوئی بات ہوئ ہے جاتے میں قدم اور تھے آتے میں قدم اور

Read More