بھڑک اُٹھا تھا میں اپنے وجود میں اِک دن دیے کی لَو پہ لبوں کے نشان چھوڑتے وقت
Read MoreMonth: 2020 دسمبر
شاہد ماکلی … مرے سُکوت سے ٹکراتی تھی ہنسی اس کی
مرے سُکوت سے ٹکراتی تھی ہنسی اس کی زیادہ دن نہ چلی دوستی مری اس کی وہ منہدم ہوا اپنی کشش کے زیرِ اثر اور ایک نقطے میں جِھلمل سمٹ گئی اس کی میں ایک منظرِ گم گشتہ کی تلاش میں تھا اُمید آگے سے آگے لیے پھری اس کی فسردہ یوں بھی نہیں ہوں مَیں دل کے بجھنے پر تم آؤ گے تو چمک لوٹ آۓ گی اس کی نہ صرف یہ کہ چھٹی حِس یقیں دلاتی ہے گواہی دیتے ہیں پانچوں حواس بھی اس کی خبر دُھوئیں کی…
Read Moreعطاء الرحمن قاضی ۔۔۔ ساعتِ ہجر کو ارژنگ نوائی دے گا
ساعتِ ہجر کو ارژنگ نوائی دے گا وہ اگر ہے اسی منظر میں دکھائی دے گا اب گلابی میں کہاں جلوۂ گلزارِ ارم رند تڑپیں گے ہر اک جام دہائی دے گا خلوتِ ناز سے دوری نے رکھا گرمِ سفر مر ہی جاؤں گا اگر مجھ کو رسائی دے گا دے رہا ہے جو نمو زخم کو ، اک روز وہی دیکھنا ، مرہمِ گریہ مرے بھائی دے گا جھانکتا ہے یہ جو مہتاب کسی غرفے سے نیلمیں شام کو ساغر سے رہائی دے گا زخمہ ور ، چھیڑ! رگِ…
Read Moreعابد سیال ۔۔۔ دور دیسوں سے بلائے بھی نہیں جا سکتے
دور دیسوں سے بلائے بھی نہیں جا سکتے وہ پکھیرو جو بھلائے بھی نہیں جا سکتے تُرش خُو ، تیز مزہ پھل ہیں یہاں کے اور ہم بنا چکھے ، بنا کھائے بھی نہیں جا سکتے حیرتِ مرگ ، بلاوا ہے یہ اس جانب سے جس طرف دھیان کے سائے بھی نہیں جا سکتے کرچی کرچی کی چبھن سہنا بھی آسان نہیں خواب آنکھوں سے چھپائے بھی نہیں جا سکتے کچھ جو کہتا ہوں تو پھر اپنا ہی دل کٹتا ہے لوگ اپنے ہیں، رُلائے بھی نہیں جا سکتے
Read Moreسید علی مطہر اشعر ۔۔۔۔۔ کیا حادثہ ہوا ہے کہاں ہیں مکاں کے لوگ
کیا حادثہ ہوا ہے کہاں ہیں مکاں کے لوگ شاید زمیں میں دھنستے رہے ہیں یہاں کے لوگ درپیش تھے زمیں کے مسائل بطورِ خاص محفل سے اُٹھ کے جانے لگے آسماں کے لوگ تجدیدِ راہ و رسم کے کچھ سلسلے تو تھے دیوار بن گئے ہیں مگر درمیاں کے لوگ شاید وہ سر زمینِ قناعت بھی ہو کہیں رہتے ہوں اپنے ظرف کے اندر جہاں کے لوگ شہروں کی پستیوں میں بھی رہنے کے باوجود اب تک بہت عظیم ہیں گاؤں گراں کے لوگ اشعر ہوا کے شور کا…
Read Moreمبشر سعید ۔۔۔ تیرا انکار جو اقرار نہیں ہو سکتا
تیرا انکار جو اقرار نہیں ہو سکتا دل ترا حاشیہ بردار نہیں ہو سکتا کیا ہواؤں کے قبیلے سے تعلق ہے ترا؟ تو چراغوں کا طرف دار نہیں ہو سکتا؟ تو نے جو رقص رچایا ہے بدن کے اندر یہ تماشا سرِ بازار نہیں ہو سکتا؟ اے مری نیند پہ بہتان لگانے والے! میں ترے خواب میں بیدار نہیں ہو سکتا؟ اشک کا پھول مری آنکھ پہ کھلنا ہے سعید شاخ پہ رنج نمودار نہیں ہو سکتا
Read Moreمعین احسن جذبی
سوالِ شوق پہ کچھ اُن کو اجتناب سا ہے جواب یہ تو نہیں ہے مگر جواب سا ہے
Read Moreآفتاب حسین
گُزار دی شبِ عُمر اور اس کے بعد کُھلا اُس آنکھ میں بھی کوئی خواب ہے ہمارے لیے
Read Moreشاہین عباس
چہار رخ مرے دو بازوؤں کی باڑ لگا کسی طرف سے بھی فصلِ فنا خراب نہ ہو
Read Moreحمیدہ شاہین
شاید پیچھے آنے والے ہم سے بہتر دیکھیں ہم نے کچھ دروازے کھولے ، کچھ پردے سرکائے
Read More