مبشر سعید ۔۔۔ تیرا انکار جو اقرار نہیں ہو سکتا

تیرا انکار جو اقرار نہیں ہو سکتا دل ترا حاشیہ بردار نہیں ہو سکتا کیا ہواؤں کے قبیلے سے تعلق ہے ترا؟ تو چراغوں کا طرف دار نہیں ہو سکتا؟ تو نے جو رقص رچایا ہے بدن کے اندر یہ تماشا سرِ بازار نہیں ہو سکتا؟ اے مری نیند پہ بہتان لگانے والے! میں ترے خواب میں بیدار نہیں ہو سکتا؟ اشک کا پھول مری آنکھ پہ کھلنا ہے سعید شاخ پہ رنج نمودار نہیں ہو سکتا

Read More