مبشر سعید ۔۔۔۔ شاخ پہ رنج نمودار نہیں ہو سکتا

کسی منظر نہ کسی جسم کی عریانی سے آنکھ حیران ہے خوابوں کی فراوانی سے جس طرح پیاس میں پانی کا میسر آنا میں تمھیں دیکھ رہا ہوں اُسی حیرانی سے آگ اور تیز ہوا دل کو لُبھاتے ہیں مگر گہے مٹی سے میں ڈرتا ہوں گہے پانی سے باغ میں وقت بِتانے سے یہ ہوتا ہے کہ دل جھومنے لگتا ہے نغموں کی فراوانی سے جہاں رہتے ہیں مرے جان سے پیارے مرشد پیار کرتا ہوں اُسی خطہِ بارانی سے بات دنیا کو عقیدت سے بتاؤ کہ سعید چین…

Read More

مبشر سعید ۔۔۔ برائے نقشِ منور شریک ہوتا ہے

برائے نقشِ منور شریک ہوتا ہے سُخن میں سوچ کا جوہر شریک ہوتا ہے نبیﷺ کا ذکر وہ ذکرِ عظیم ہے جس میں مرا خدا بھی برابر شریک ہوتا ہے خمار خانہِ دنیا فضول ہے، صاحب! تو اس فریب میں کیوں کر شریک ہوتا ہے؟ اُسے خیال ہے یعنی تمام باتوں کا خوشی غمی میں جو اکثر شریک ہوتا ہے قضا کے ساتھ ہمیشہ مکالمے میں سعید جو سر پھرا ہو وہ بہتر شریک ہوتا ہے

Read More

مبشر سعید ۔۔۔ تیرا انکار جو اقرار نہیں ہو سکتا

تیرا انکار جو اقرار نہیں ہو سکتا دل ترا حاشیہ بردار نہیں ہو سکتا کیا ہواؤں کے قبیلے سے تعلق ہے ترا؟ تو چراغوں کا طرف دار نہیں ہو سکتا؟ تو نے جو رقص رچایا ہے بدن کے اندر یہ تماشا سرِ بازار نہیں ہو سکتا؟ اے مری نیند پہ بہتان لگانے والے! میں ترے خواب میں بیدار نہیں ہو سکتا؟ اشک کا پھول مری آنکھ پہ کھلنا ہے سعید شاخ پہ رنج نمودار نہیں ہو سکتا

Read More

مبشر سعید ۔۔۔۔۔۔۔ راز کب راز رہا ہے کسی رعنائی کا

راز کب راز رہا ہے کسی رعنائی کا حال میں جان چُکا آنکھ کی تنہائی کا کیسے وہ درد کی شدت کو سمجھ سکتا ہے؟ جس کو اندازہ نہ ہو زخم کی گہرائی کا کارِ دنیا میں لگاؤں تو مسلسل ہی مرے دل کو دھڑکا سا لگا رہتا ہے رُسوائی کا غیب سے حضرتِ غالب کی صدا آتی ہے شاعری کام نہیں قافیہ پیمائی کا عاجزی ہم نے بنایا ہے وطیرہ اپنا بسی یہی کام کیا زیست میں دانائی کا رات ہو وصل کی بارش میں نہائی ہوئی رات ہم…

Read More

مبشر سعید ۔۔۔۔۔۔ سرسری سی بات کا

سرسری سی بات کا کیا مزا ہے رات کا؟ دھل گیا ہے دھوپ سے جسم پات پات کا فقر نے عطا کیا علم شش جہات کا پڑ گیا ہے کان میں شور ممکنات کا زندگی کے ہاتھ سے سوچنا کیوں مات کا؟ موت نے مجھے دیا راستہ حیات کا غیب سے عطا ہُوا شعر مجھ کو نعت کا کوستا ہے خود کو آب آج تک فرات کا زندگی سے کم نہیں لمس تیرے ہات کا

Read More