مبشر سعید ۔۔۔۔۔۔۔ راز کب راز رہا ہے کسی رعنائی کا

راز کب راز رہا ہے کسی رعنائی کا حال میں جان چُکا آنکھ کی تنہائی کا کیسے وہ درد کی شدت کو سمجھ سکتا ہے؟ جس کو اندازہ نہ ہو زخم کی گہرائی کا کارِ دنیا میں لگاؤں تو مسلسل ہی مرے دل کو دھڑکا سا لگا رہتا ہے رُسوائی کا غیب سے حضرتِ غالب کی صدا آتی ہے شاعری کام نہیں قافیہ پیمائی کا عاجزی ہم نے بنایا ہے وطیرہ اپنا بسی یہی کام کیا زیست میں دانائی کا رات ہو وصل کی بارش میں نہائی ہوئی رات ہم…

Read More