تنقید، منطق، سائنس … ڈاکٹر سلیم اختر

ادب کی اپنی تہذیب ہوتی ہے جس کا ایک جزو کتاب کا کلچر ہوتا ہے جب کہ تنقید ادب کی تہذیب کے تقاضے مدنظر رکھتے ہوئے تخلیق کی خوشبو عام کرنے کا باعث بنتی ہے۔ اس ضمن میں یہ امر بھی واضح رہے کہ تخلیق معاشرہ کی ادبی تہذیب کی مظہر، ترجمان اور سمت نما ہوتی ہے۔ اس ضمن میں ٹیبوز، روحانی اقدار، مذہبی قواعد، سیاسی منظر نامہ، سماجی روےے، عمومی صورتِ حال، اقتصادی امور یہ سب بھی کسی نہ کسی صورت میں تخلیق پر منفی یا مثبت طور پر…

Read More

خمارِ عشق … رشید امجد

ایک دن گم ہو گیا تھا، کیسے؟ یہ پتہ نہیں چل رہا تھا، ہوا یوں کہ اسے ایک ڈرامہ سیریل دیکھنے کا بڑا شوق تھا، کچھ ہی ہو جائے وہ اس کی کوئی قسط نہیں چھوڑتا تھا۔ اس کی بارہویں قسط دیکھی تو اشتیاق اور بڑھا کہ کہانی نے تیرہویں قسط میں نیا رُخ اختیار کرنا تھا، لیکن جب اگلی قسط دیکھ رہا تھا تو احساس ہوا کہ کچھ آگے پیچھے ہو گیا ہے۔ بارہویں قسط کا تسلسل ٹوٹ سا رہا ہے، قسط ختم ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ…

Read More

جلیل عالی ۔۔۔ نہیں ہے شک ہمیں کوئی تری محبت پر

نہیں ہے شک ہمیں کوئی تری محبت پر اک اضطراب ہے بس خامشی کی عادت پر رکھا ہوا ہے فراغت نے اس قدر مصروف اٹھائے جاتے ہیں ہر ایک کام فرصت پر نہ جانے کب کسی بے سمت موج بہہ جائے میں خود بھی سخت پریشاں ہوں اس طبیعت پر دو نیم ہونے کا دکھ ہے مگر ہے سچ یہ بھی شکست مَل گئی کالک رخِ رعونت پر اٹھا دیا ہے سوال اب جواب جب بھی ملے یہ بات چھوڑ رہے ہیں تری سہولت پر لہو میں سوزِ محبت کی…

Read More

عرفان صادق ۔۔۔ کہیں مَیں جگنو، کہیں مَیں تتلی بنا رہا ہوں

کہیں مَیں جگنو، کہیں مَیں تتلی بنا رہا ہوں سو بات یہ ہے کہ تجھ کو ہنسنا سکھا رہا ہوں گریز پائی کی ساعتوں میں مہکنے والی میں تیری جانب ہر ایک جانب سے آ رہا ہوں دلوں پہ گرتی رہیں گی شعروں کی اُجلی کلیاں میں اپنی تازہ غزل کی شاخیں ہلا رہا ہوں وہ جلتے بجھتے دیے کی لو کی طرح ہے روشن میں اپنے بچپن کی اس کو باتیں سنا رہا ہوں خیال تیرا‘ سروپ تیرا‘ شبیہ تیری میں اپنے لفظوں کی روشنی میں نہا رہا ہوں

Read More

جاوید قاسم ۔۔۔ نہ کوئی بات کرے گا نہ پیار دے گا مجھے

نہ کوئی بات کرے گا نہ پیار دے گا مجھے برے دنوں کی طرح وہ گزار دے گا مجھے اسے میں جیت تو لوں جاں پہ کھیل کر لیکن بغیر جنگ کے وہ شخص ہار دے گا مجھے میں جانتا ہوں کہ وہ وقت کے بدلتے ہی پھٹے لباس کی صورت اتار دے گا مجھے کیا ہے جس نے مجھے در بدر زمانے میں وہ کائنات پہ بھی اختیار دے گا مجھے میں اس یقین پہ مسمار ہو گیا قاسم کہ اس کا دستِ ہنر پھر اسار دے گا مجھے

Read More

توقیر عباس ۔۔۔ کسی دن

کسی دن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا البیلے ہرے سہانے پیڑ ہیں جن کی خاطر میرے ذہن میں ایک توانا خواہش انگڑائی لے کر چپکے سے کہتی ہے: چلو کسی دن گدلا دریا چیر کے اُن کی چھاؤں کو چھونے سدا سہاگن نہروں کا ٹھنڈا میٹھا پانی پینے اس خوشبو سے خود کو مست معطر کرنے جس میں کبھی ہم بھیگ چکے ہیں اور یہاں تو آسیبی سائے ہیں کالی سڑکیں اور دھواں ہے

Read More