اشرف سلیم ۔۔۔ چراغ لے کر ہم اپنے گھر تک پہنچ گئے ہیں

چراغ لے کر ہم اپنے گھر تک پہنچ گئے ہیں بڑی خموشی سے چشمِ تر تک پہنچ گئے ہیں چلو محبت کا فائدہ یہ ہوا کہ ہم لوگ سفر کٹھن تھا مگر سحر تک پہنچ گئے ہیں یہ زندگی کیا کسی اذیّت سے کم نہیں ہے جسے لیے ہم ترے نگر تک پہنچ گئے ہیں یہ معجزہ تھا خموش بیٹھے تھے بزم میں ہم پلک اٹھی تو تری نظر تک پہنچ گئے ہیں کہا کسی نے، سنا کسی نے کہ بے ارادہ جو بے خبر تھے، وہ اب خبر تک…

Read More

اشرف سلیم

اب آئنے کے برابر ٹھہر گیا ہے سلیم غزال شہر میں وہ خود نمائی چاہتا ہے

Read More