عمر بھر روح کی اور جسم کی یک جائی ہو کیا قیامت ہے کہ پھر بھی نہ شناسائی ہو
Read MoreMonth: 2019 نومبر
آدمی نامہ ۔۔۔۔۔ نظیر اکبر آبادی
آدمی نامہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں بادشا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی اور مفلس و گدا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی زردار، بے نوا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی نعمت جو کھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی ٹکڑے جو مانگتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی ابدال و قُطب و غوث و وَلی، آدمی ہوئے مُنکِر بھی آدمی ہوئے اور کُفر کے بھرے کیا کیا کرشمے، کشف و کرامات کے کیے حتیٰ کے اپنے زہد و ریاضت کے زور سے خالق سے جا ملا ہے ،…
Read Moreجوش ملسیانی ۔۔۔ چھوڑ دو غصے کی باتیں، اشتعال اچھا نہیں
چھوڑ دو غصے کی باتیں، اشتعال اچھا نہیں اتنا رنج، اتنا گِلہ، اتنا ملال اچھا نہیں خستگی بھی شرط ہے اُن کی نوازش کے لیے حال اچھا ہے اُسی کا جس کا حال اچھا نہیں گردشِ تقدیر کا چکر وہی جاری رہا! کیا مرے طالع میں، یارب! کوئی سال اچھا نہیں اب تمھاری چارہ سازی کا بھرم کھلنے کو ہے لوگ کہتے ہیں: مریضِ غم کا حال اچھا نہیں مر گئے جو راہِ اُلفت میں، مسیحا ہو گئے کون کہتا ہے محبت کا مآل اچھا نہیں بدنصیبی، بدنصیبی ہے مگر…
Read Moreعلامہ اقبال
عروسِ لالہ! مناسب نہیں ہے مجھ سے حجاب کہ مَیں نسیمِ سحر کے سوا کچھ اور نہیں
Read Moreاحسان دانش
دمک رہا ہے جو نَس نَس کی تشنگی سے بدن اِس آگ کو نہ ترا پیرہن چھپائے گا
Read Moreنیلو ۔۔۔۔۔ حبیب جالب
نیلو ۔۔۔ تو کہ ناوا قفِ آدابِ شہنشاہی تھی رقص زنجیر پہن کر بھی کیا جاتا ہے تجھ کو انکار کی جرّات جو ہوئی تو کیونکر سایہءشاہ میں اسطرح جیا جاتا ہے؟ اہلِ ثروت کی یہ تجویز ہے، سر کش لڑکی! تجھ کو دربار میں کوڑوں سے نچایا جائے ناچتے ناچتے ہو جاے جو پائل خاموش پھر نہ تازیست تجھے ہوش میں لایا جاے لوگ اس منظرِ جانکاہ کو جب دیکھیں گے اور بڑھ جاے گا کچھ سطوتِ شاہی کا جلال تیرے انجام سے ہر شخص کو عبرت ہوگی سر…
Read Moreجوش ملیح آبادی ۔۔۔۔۔۔ سوزِ غم دے کے مجھے اُس نے یہ ارشاد کیا
سوزِ غم دے کے مجھے اُس نے یہ ارشاد کیا جا، تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ جن کو تیری نگہِ لطف نے برباد کیا دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا جب چلی سرد ہَوا، میں نے تجھے یاد کیا اے مَیں سو جان سے اس طرزِ تکلّم کے نثار پھر تو فرمائیے، کیا آپ نے ارشاد کیا اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دِل برباد اس کا غم ہے کہ بہت دیر میں برباد…
Read Moreتو پھر اک نظم اگتی ہے… ارشد معراج
تو پھر اِک نظم اُگتی ہے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی آوارہ جھونکا موسموں کے ہاتھ سے پھسلے تو میں اس کی صداؤں کے تعاقب میں نکلتا ہوں اسے میں ڈھونڈتا ہوں شاخ پر تنہا لرزتے آخری پتے کی ہچکی میں کبھی ویران مندر کے اکھڑتے پتھروں سے جھانکتے پیپل کے پودے میں کبوتر کے بکھرتے آہلنے میں اور کبھی مکڑی کے جالے میں کبھی دریا کنارے ڈار سے بچھڑی ہوئی کونجوں کے گیتوں میں جہاں پر ہجر بہتا ہے اسے میں ڈھونڈتا ہوں اپنے کمرے میں پڑے بستر کی سلوٹ میں جہاں…
Read Moreافضل خان ۔۔۔۔ مجھے رونا نہیں، آواز بھی بھاری نہیں کرنی
مجھے رونا نہیں، آواز بھی بھاری نہیں کرنی محبت کی کہانی میں اداکاری نہیں کرنی ہمارا دل ذرا اُکتا گیا تھا گھر میں رہ رہ کر یونہی بازار آئے ہیں خریداری نہیں کرنی تحمل، اے محبت ! ہجر پتھریلا علاقہ ہے تجھے اس راستے پر تیز رفتاری نہیں کرنی ہوا کے خوف سے لپٹا ہوا ہوں خشک ٹہنی سے کہیں جانا نہیں، جانے کی تیاری نہیں کرنی غزل کو کم نگاہوں کی پہنچ سے دور رکھتا ہوں مجھے بنجر دماغوں میں شجر کاری نہیں کرنی وصیت کی تھی مجھ کو…
Read Moreظفر اقبال
جہاں تہاں مرے ٹکڑے بکھرتے جاتے ہیں بُرا نہیں یہ مرا انتشار میں ہونا
Read More