اکبر الہ آبادی

سمجھ میں صاف آ جائے فصاحت اس کو کہتے ہیں اثر ہو سننے والے پر بلاغت اس کو کہتے ہیں

Read More

ظفر اکبر آبادی ۔۔۔ کبھی کبھی تو اس انداز سے ملا کوئی

کبھی کبھی تو اس انداز سے ملا کوئی مجھے بھی مجھ سے بہت دور لے گیا کوئی وہاں کسی کو مخاطب کرے تو کیا کوئیجہاں نہ ہو کسی آواز پر صدا کوئی گزر رہا ہوں اب ان منزلوں سے مَیں کہ جہاںترے پیام بھی لاتی نہیں صبا کوئی تو اپنی خود غرضی سے بھی کاش ہو آگاہ دکھائے کاش تجھے تیرا آئنہ کوئی سبک خرام، سبک رو تھا وقت کچھ اتنا کہ ساتھ چند قدم بھی نہ چل سکا کوئی نوازتا رہا زخموں سے تو کسی کو، مگر جواب میں…

Read More

میکش اکبر آبادی ۔۔۔ رات اس محفل کا عالم کیا کہوں

رات اس محفل کا عالم کیا کہوں بات افسانہ تھی، خاموشی فسوں تجھ سے اپنی زندگی کے ماجرے ٹھیر، ہم دم! سانس لے لوں تو کہوں ہم نے لالے کی طرح اس دَور میں آنکھ کھولی تھی کہ دیکھا دل کا خوں آپ کی میری کہانی ایک ہے کہیے، اب مَیں کیا سنائوں، کیا سنوں آپ کا انجان پن بھی ایک فن اور میری عقل و دانش بھی جنوں دیکھنا ہے تیرا یہ عالم مجھے چاہے بہہ نکلے مری آنکھوں سے خوں ہے زمانہ اپنے غم میں مبتلا کس سے،…

Read More

صبا اکبر آبادی ۔۔۔ شمع کا نور عارضی ہے میاں

شمع کا نور عارضی ہے میاں روشنی دل کی روشنی ہے میاں ماہیت پر کسی کی غور نہ کر جو نظر آئے بس وہی ہے میاں بے سبب انتظار ہے تیرا ایک عادت سی ہو گئی ہے میاں میری دنیا میں اور سب کچھ ہے بس فقط آپ کی کمی ہے میاں اب وہ آرایشِ کلام کہاں؟ اب تو باتوں میں سادگی ہے میاں میر صاحب بتا گئے سب کو تیرے لب کی جو نازکی ہے میاں مے کدے بند ہو گئے جب سے مستقل دورِ سرخوشی ہے میاں ہمیں…

Read More

نظیر اکبر آبادی ۔۔۔۔ ہو کیوں نہ تِرے کام میں حیران تماشا

ہو کیوں نہ تِرے کام میں حیران تماشا یا رب ! تِری قُدرت میں ہےہر آن تماشا لے عرش سےتا فرش نئے رنگ، نئے ڈھنگ ہر شکل عجائب ہے، ہر اِک شان تماشا افلاک پہ تاروں کے  جھمکتے ہیں طلسسمات اور رُوئے زمیں پر گل و ریحان تماشا جِنّات، پَری، دیو، ملک، حوُر بھی نادر اِنسان عجوبہ ہیں تو حیوان تماشا (ق) جب حسن کے جاتی ہے مرقع پہ نظر، آہ! کیا کیا نظر آتا ہے ہر اِک آن تماشا چوٹی کی گندھاوٹ کہیں دِکھلاتی ہےلہریں رکھتی ہے کہیں زُلفِ…

Read More

آدمی نامہ ۔۔۔۔۔ نظیر اکبر آبادی

آدمی نامہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ دنیا میں بادشا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی اور مفلس و گدا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی زردار، بے نوا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی نعمت جو کھا رہا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی ٹکڑے جو مانگتا ہے، سو ہے وہ بھی آدمی ابدال و قُطب و غوث و وَلی، آدمی ہوئے مُنکِر بھی آدمی ہوئے اور کُفر کے بھرے کیا کیا کرشمے، کشف و کرامات کے کیے حتیٰ کے اپنے زہد و ریاضت کے زور سے خالق سے جا ملا ہے ،…

Read More