شاہ نصیر

خیالِ زلفِ بتاں میں نصیر پیٹا کر گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

Read More

ایک منظر ۔۔۔۔ ساحر لدھیانوی

ایک منظر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ افق کے دریچے سے کرنوں نے جھانکا فضا تن گئی، راستے مسکرائے سمٹنے لگی نرم کہرے کی چادر! جواں شاخساروں نے گھونگھٹ اٹھائے پرندوں کی آواز سے کھیت چونکے پراسرار لَے میں رہٹ گنگنائے حسیں شبنم آلود پگڈنڈیوں سے لپٹنے لگے سبز پیڑوں کےسائے وہ دور ایک ٹیلے پہ آنچل سا جھلکا تصور میں لاکھوں دیے جھلملائے

Read More

فراق گورکھپوری ۔۔۔۔۔ آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے

آنکھوں میں جو بات ہو گئی ہے اِک شرحِ حیات ہو گئی ہے جب دل کی وفات ہو گئی ہے ہر چیز کی رات ہو گئی ہے غم سے چُھٹ کر یہ غم ہے مجھ کو کیوں غم سے نجات ہو گئی ہے مدت سے خبر ملی نہ دل کی شاید کوئی بات ہو گئی ہے جس شے پہ نظر پڑی ہے تیری تصویرِ حیات ہو گئی ہے اب ہو مجھے دیکھیے کہاں صُبح  ان زلفوں میں رات ہو گئی ہے دل میں تجھ سے تھی جو شکایت اب غم…

Read More

کشفی ملتانی

اظہارِ محبت مرے آنسو ہی کریں گے اظہار بہ اندازِ دگر ہو نہیں سکتا

Read More

محسن نقوی ۔۔۔۔ محبت پھول ہے پتھر نہیں ہے

محبت پھول ہے، پتھر نہیں ہے مجھے رُسوائیوں کا ڈر نہیں ہے ستارے، چاندنی، مےَ، پھول، خوشبو کوئی شے آپ سے بڑھ کر نہیں ہے زمانے سے نہ کُھل کے گفتگو کر زمانے کی فضا بہتر نہیں ہے مرا رستہ یونہی سُنسان ہوگا مرے رستے میں تیرا گھر نہیں ہے مجھے وحشت کا رُتبہ دینے والے! ترے ہاتھوں میں کیوں پتھر نہیں ہے محبت اَدھ کِھلی کلیوں کا رس ہے محبت زہر کا ساغر نہیں ہے نظر والو! چمک پر مر رہے ہو ہر اِک پتھر یہاں گوہر نہیں ہے…

Read More

مجھے نیا طلسم دے ۔۔۔ ثمینہ راجا

مجھے نیا طلسم دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدائے دل! مجھے بتا، میں کیا کروں کہ راز مجھ پہ ہوں عیاں کہ رنگ مجھ پہ کِھل اٹھیں ہو وقت مجھ پہ مہرباں مرے یہ پائوں راہ کی تپش سے اب جھلس گئے مری نظر بھی تھک گئی مجھے ملا نہیں نہالِ سبز کا کوئی نشاں نہ شہر میں کوئی صدائے آشنا نہ صبحِ دلبری، نہ شامِ دوستاں مرا نصیب سو چکا مرا طلسم کھو چکا خدائے دل!

Read More

بانی

شب، کون تھا یہاں جو سمندر کو پی گیا اب کوئی موجِ آب نہ موجِ سراب ہے

Read More

مہلت ۔۔۔۔۔۔۔ نعیم رضا بھٹی

مہلت ۔۔۔۔۔ سرِ مثرگاں ابد آثار امیدوں کا سیلِ خوش نگاہی بہہ رہا ہے اور میں مہلت کی خواہش کے کٹاؤ سے ذرا آگے ارادوں کے حقیقی بانجھ پن کی گونج سنتا ہوں یہیں تم تھے یہیں میں تھا مگر اب راکھ اڑتی ہے تمھارے حسن کی جولاں مری عجلت کی سرشاری کبھی وقفے کی بیزاری بدن کی ساکھ جھڑتی ہے مجھے بوسیدہ فکر و قدر کی شہہ پر دماغوں کی فنا کا مرثیہ لکھنا تھا، لیکن میں نے ہنستی مسکراتی نظم لکھی ہے

Read More

شناور اسحاق ……. سینہ سینہ سانسوں کے بٹوارےچلتے رہتے ہیں

سینہ سینہ سانسوں کے بٹوارےچلتے رہتے ہیں آشاؤں کے سندر بن میں آرے چلتے رہتے ہیں صدیاں اپنی راکھ اُڑاتی رہتی ہیں چوراہوں میں مَٹّی کی شَریانوں میں اَنگارے چلتے رہتے ہیں خاک نگرسے آنکھوں کاسنجوگ بھی ایک تماشا ہے آنکھیں جلتی رہتی ہیں، نظّارے چلتے رہتے ہیں دَر اَندازی کرنے والی آنکھیں رسوا ہوتی ہیں اَور جھیلوں میں جھالر دار شِکارے چلتے رہتے ہیں دنیا اپنے بازاروں میں ہاتھ ہِلاتی رہتی ہے اپنے دھیان کی گلیوں میں بنجارے چلتے رہتے ہیں

Read More

احمد مشتاق

ہر نئے چہرے کے ساتھ اک آرزو جاتی رہی گم ہوئیں چیزیں مری نقل مکانی میں بہت

Read More