شناور اسحاق

دن نکل آیا ہے پھر تہمتِ رونق لے کر آپ کو شہر سے جانا بھی نہیں آتا ہے

Read More

دیارِ آزر و بہزاد و مانی سے چلے جائیں ۔۔۔ شناور اسحاق

دیارِ آزر و بہزاد و مانی سے چلے جائیں ہم اکثر سوچتے ہیں اِس کہانی سے چلے جائیں ہمیں مٹی سے چھپنے کا ہنر آتا نہیں، شاہا! وگرنہ ہم بھی تیری راجدھانی سے چلے جائیں تو دریا ہے، تجھے اب کیا کہیں ہم اِذن کے قیدی اکیلے ہوں تو ہم تیری روانی سے چلے جائیں لہو کب سے کسی بابِ خفی کی جستجو میں تھا چلو اب اس فشارِ بد گمانی سے چلے جائیں بدن میں گر رہی ہے اوّلیں اِقرار کی شبنم شناور! اس جحیمِ لازمانی سے چلے جائیں

Read More

کیا بتلائیں! ۔۔۔ شناور اسحاق

کیا بتلائیں! ۔۔۔۔۔۔۔ نِندیا پور میں شور مچانے یہ شبدوں کے غول نہ جانے کن جھیلوں سے آ جاتے ہیں نیند اکہری کر دیتے ہیں ( نیند اکہری ہو جائے تو راتیں بھاری ہو جاتی ہیں) دنیا داری رشتے ناطے بازاروں اور گلیوں کی سَت رنگی رونق بیداری کو گہرا کرنے والے جتنے حربے تھے سب ہم پر ناکام ہوئے ہیں سونے والوں کے صحنوں میں جاگنے والوں کی گلیوں میں ہم جیسے بے زار بہت بدنام ہوئے ہیں

Read More

شناور اسحاق ……. سینہ سینہ سانسوں کے بٹوارےچلتے رہتے ہیں

سینہ سینہ سانسوں کے بٹوارےچلتے رہتے ہیں آشاؤں کے سندر بن میں آرے چلتے رہتے ہیں صدیاں اپنی راکھ اُڑاتی رہتی ہیں چوراہوں میں مَٹّی کی شَریانوں میں اَنگارے چلتے رہتے ہیں خاک نگرسے آنکھوں کاسنجوگ بھی ایک تماشا ہے آنکھیں جلتی رہتی ہیں، نظّارے چلتے رہتے ہیں دَر اَندازی کرنے والی آنکھیں رسوا ہوتی ہیں اَور جھیلوں میں جھالر دار شِکارے چلتے رہتے ہیں دنیا اپنے بازاروں میں ہاتھ ہِلاتی رہتی ہے اپنے دھیان کی گلیوں میں بنجارے چلتے رہتے ہیں

Read More