شناور اسحاق ۔۔۔ گلیوں گلیوں از شاہین عباس

"گلیوں گلیوں” از شاہین عباس
کارخانہ ہے”یاں” تو جادو کا
شاہین عباس کی دوستی میرے قیمتی اثاثوں  میں سے ہے۔ اس کی محبت ہے کہ اس نے اپنی غزلوں کےچوتھے مجموعے "گلیوں گلیوں” کا نسخہ اول ناچیز کو بھجوایا ۔۔۔ اپنے دوستوں میں دو لوگوں کا استغراق ہمیشہ میرے لیے قابلِ رشک رہا ، ایک شاہین عباس اور دوسرے ۔۔۔   ان کا ذکر کچھ دنوں کے بعد آئے گا ۔۔۔ کچھ روز پہلے اپنے نظام شمسی کے بارے میں ایک مختصر دستاویزی فلم دیکھی ۔۔۔  اتنی بڑی کائنات میں زمین کی اوقات دیکھ کے ایک دھچکا سا لگا ۔۔۔  گڑ کی بھیلی کے گرد سات ارب چیونٹیوں کی تمثیل ہی سوجھی ۔۔۔  مگر رسل کے بیان نے کچھ ڈھارس بندھائی کہ کائنات کو محض اس کے حجم کی وجہ سے خراج عقیدت پیش نہیں کیا جا سکتا: 
ضرور کوئی نہ کوئی چکر ہے اس جہاں میں
نظر اٹھاؤں تو گھومتا ہے دماغ میرا
(آفتاب حسین)
اس قدر غور سے مت دیکھ بھنور کی جانب
تو بھی چکرا کے نہ گر جائے کہیں پانی میں
(فیصل عجمی)
شاہین عباس اس کائنات میں انسان کی معنویت کا متلاشی ہے۔ وہ عشق، ہجر اور اداسی سے ہوتا ہوا انسانی شرف کی رحلت پر ماتم تک آ پہنچا ہے وہ کسی تاریخی یا اساطیری احیا کا متمنی نہیں بلکہ کچھ روحانی، اخلاقی اور معاشرتی قدروں کی بازیافت چاہتا ہے جو کبھی ہماری زندگیوں کا حصہ تھیں ۔۔۔  منیر سیفی یاد آ گئے:
مٹی تھی میثاق پہ قائم
پانی وعدہ بھول گیا تھا
جنگوں، قبضوں اور کھوپڑیوں کے میناروں کے متوازی ایک زندگی تھی جوبے شک حاشیے پر تھی ۔۔۔  لیکن تھی ۔۔۔  شاہین عباس اس زندگی کے محو ہو جانے اور اس کی جگہ شور، ہجوم اورایک بے معنی تماشے کی موجودگی کے سبب گہرے صدمے کے زیر اثر ہے، یہ شاعری اسی صدمے کی زائیدہ ہے۔ گذشتہ ستر  اسی  برسوں  کے دوران کئی عظیم آدرش، بڑے بڑے نظریات اور مہابیانیے شکست وریخت کا شکار ہوئے ۔۔۔  ایک پیراڈائم شفٹ ہو گیا۔ اس صورتحال سے پیداشدہ روحانی اور نفسیاتی دکھ کی پرچھائیاں بھی شاہین عباس کی غزلوں میں جا بجا  دکھائی دیتی ہیں۔
شاہین عباس نے اس بات کو بھی اضافی(غزل کے ذریعے)  ثابت کیا ہے کہ غزل محض ریزہ خیالی ہے ایک ایک زمین میں دو دو تین تین بلکہ دس دس غزلیں کہی ہیں اور ہر غزل بارہ بارہ پندرہ پندرہ اشعار پر مشتمل ۔۔۔  یہ وفور اور تخلیقی کیفیت کا استقرار بجائے خود حیرت انگیز اور قابل رشک ہے (اگرچہ پہلے مسلسل غزل کی مضبوط روایت موجود ہے)۔
کچھ اشعار محض تبرک کے طور پہ درج کر رہا ہوں:
اک مجمع موہوم تعاقب  میں تھا اور میں
تنہائی ہر ثابت و سیار سے گزرا
ازل ابد میں ٹھنی ہے سو میں نکلتا ہوں
مری کڑی سے ترا سلسلہ خراب  نہ ہو
یہ وقت کا خاص آدمی تھا
بے وقت جو گھر جا رہا ہے
جس سمے سر مرا افلاک سے ٹکرایا تھا
خاک پر پاؤں پڑا تھا اسی دوران مرا
خرابی میں یہ خم آیا اچانک 
خرابہ  اچھا خاصا بن رہا تھا
ہم مکاں بھی تھے مکیں بھی تھے کہ بازار تھا گرم
پھر خسارا ہوا اور صرف مکاں رہ گئے ہم
جلوت اس جلوہ و جا کی معلوم
کچھ بھی کرلیں یہ تماشا نہ لگائیں
حضوری و غیاب میں پڑا نہیں
مجھے پلٹنا آتا تھا پلٹ گیا
ہر رنگ کے اڑ رھے ہیں چھینٹے
تصویر میں سے گزر رہا تھا
تمثیل کا کوئی ثانیہ میں
قرنوں کو خراب کر رہا تھا
آسماں گرتا ہوا صاف نظر آتا  ہے
بالاخانوں میں یہ در کھلتےہیں تہ خانوں کے
یہ خرابہ خبر کا لگتا ہے
قفل اس کو بھی گھر کا لگتا ہے
چلتا رہا اور آنکھ بھی اس کی نہیں کھلی
کیا آدمی تھا، خواب رواں کا بنا ہوا
یونہی ہم آتے جاتے تیرا نقشہ کھینچ لاتے
ترے غرفوں کی غیبت کس گلی ہوتی نہیں تھی
یہ صحن گواہ ہے ہمارا
اس گھر میں بھی در بدر گئے ہم
دریافت کو زخم کی چلے تھے
تاریخ کی دھار پر گئے ہم
شاہین عباس نے "پارے شمارے” کے نام سے ایک منفرد قسم کا ناول بھی لکھا ھے اس پر پھر کسی روز بات کروں گا۔

Related posts

Leave a Comment