سلطان جمیل نسیم کا ’ایک ہی مٹی کے لوگ‘ ـ جاوید اختر بھٹی

سلطان جمیل نسیم معروف افسانہ نگار ہیں۔ ان کے افسانوں کا چھٹا مجموعہ ”ایک ہی مٹی کے لوگ“ میرے سامنے ہے۔ ان کی کہانیاں ہمارے معاشرے کے گرد گھومتی ہیں۔ ان چودہ افسانوں میں ہمارے عہد کے لوگ ہیں۔ ایک ہی مٹی میں پیدا ہونے والے اور ایک ہی مٹی میں خاک ہونے والے۔
نسیم لکھتے ہیں:
”ہم انسان کو کتنا جان سکتے ہیں۔ کون دعویٰ کرسکتا ہے۔ انسانی زندگی میں اچانک ظاہر ہونے والا کوئی ایک رویہ اس فرد کی گزشتہ ساری زندگی کے روز و شب کے حوالے سے حیران کردیتا ہے“
ان کی کہانیاں زندگی کا احوال بیان کرتی ہیں۔ ہر آدمی ایک داستان ہے۔ وہ انہیں بیان کریں تو بہت سی کہانیاں ہر لمحے جنم لے سکتی ہیں لیکن کہانی خود کو بیان نہیں کرتی۔ ان کے افسانہ نگار پیدا ہوتے ہیں اور کہانیوں کے کرب اور خوشیوں میں شریک ہوتے ہیں۔
اس کتاب کا پہلا افسانہ ”اور اب کتنا اندھیرا ہوگا“ ہے۔ اس میں افغانی لوگوں کے مسائل ہیں۔ یہ ان دنوں کا منظر ہے۔ جب پاکستان میں افغان پناہ گزین مسلسل آرہے تھے۔ یہ ضیاءآمریت کا زمانہ تھا۔ جب دُنیا میں افغان روس جنگ کے علاوہ کوئی موضوع زیرِ بحث نہیں تھا۔ پاکستان میں مجاہدین کی بھرتی سرعام ہورہی تھی۔ جذبہ¿ جہاد سے سرشار نوجوان افغانستان جارہے تھے۔
افسانہ نگار نے ذوالفقار علی بھٹو کو یاد کرتے ہوئے لکھا ہے (یہ وہی ذوالفقار علی بھٹو ہے جسے ضیاءآمریت میں، عدالت نے قتل کیا تھا۔ اس کا گناہ امریکہ سے گستاخی تھا۔ جس کی اسے معافی نہ ملی)
”ذوالفقار علی بھٹو نے جب سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا تو جذبات میں آکر اپنی پارٹی کے منشور کے مطابق روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے کی لاج رکھتے ہوئے بہت سی صنعتوں اور اداروں کو قومی ملکیت میں لے لیا۔ محنت کشوں کو کھلی چھوٹ دے دی۔ مالیاتی ادارے نجی ملکیت میں ہونے اور ملازمین کو نسبتاً بہتر تنخواہ دینے کے باوجود مکان خریدنے بنانے کے لئے قرضہ نہیں دیتے تھے۔ بڑے افسروں کا تو یہ ہے کہ وہ سرکاری محکمے میں ہوں یا نجی ادارے میں ان کے ہاتھ سہولت تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ مجھ جیسے جونیئر، قسم کے افسران اور کم تنخواہ پانے، دیکھنے اور ترسنے کے سوا کچھ کر ہی نہیں سکتے۔ بھٹو نے بینک ملازمین کے لئے بھی قرضے کا دروازہ کھول دیا۔ یوں ۴۷۹۱ءمیں مجھے بھی مکان بنانے کے لئے چالیس ہزار تین قسطوں میں مل گئے۔ پہلے قسط سے میں نے زمین خریدی، باقی دو قسطیں ملنے پر گھر مکمل کرلیا۔ آج یہ بات سُن کر میرے بچوں کو بھی یقین نہیں آتا ہے۔ جب کہ میرا بیٹا تو چھ ساتھ برس کا تھا اور وہ ایسی عمر ہوتی ہے کہ اہم باتیں یاد رہ جاتی ہیں۔بہرحال شہر کی نئی آباد ہونے والی بستی میں سر چھپانے کا ایک ایسا ٹھکانہ مل گیا جس کو بہت عرصے تک عزیز اقربا بنگلہ کہتے رہے۔“
یہ بھٹو کے حق میں گواہی ہے۔ وہ لاکھوں لوگ جنہیں بھٹو کے دور حکومت میں فائدہ ہوا تھا۔ ان میں اکثر اس کے خلاف ہوگئے تھے اور پھر اس کی موت پر خوشیاں منارہے تھے۔ یہ حقیقت ہے کہ بھٹو نے غریب لوگوں کے لئے اور ملازمین کے لئے اہم فیصلے کئے۔ یہ ایک گھر تعمیر نہیں ہوا تھا۔ اس کے ساتھ بہت سی نئی بستیاں تعمیر ہوئی تھیں۔ نئے ادارے اور نئی امنگیں جوان ہوئی تھیں۔
یہ افسانہ ایک گھر کے گرد گھومتا ہے۔ بھٹو کا دور اور اس کے افغان پناہ گزین کا زمانہ اس افسانے میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ایک کردار شہناز اس افسانے میں شامل ہوتاہے۔ یہ خاتون بینک میں ملازمت کرتی ہے۔ پشتو کے ساتھ فارسی، انگریزی اور اردو روانی سے بولتی تھی۔ اس نے تیرہ سال کی عمر تک انگلستان کے شہر بلیک برن میں پڑھا۔ جب افغانی صدر داﺅد کو ہلاک کردیا گیا۔ وہ اسلامیہ کالج پشاور کے دوسرے سال میں تھی اور جب نور محمد ترہ کئی کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو وہ گریجویشن کرچکی تھی۔ یہ افغانستان کے بہت اہم دنوں کی کہانی ہے۔ میں نے اسے تاریخی سچائی کے طور پر پڑھا ہے کیونکہ میں نے ان دنوں افغان جنگ کو مسلسل اخبارات، ٹی وی اور ریڈیو پر دیکھا اور سُنا ہے اور ان افغانیوں سے بھی ملا جو اپنا وطن چھوڑ کر آئے تھے۔
شہناز کا یہ کردار افسانے کو اس طرح ختم کرتا ہے
”اور سر! اب آخری بات ہے۔ میرے والد کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ انہوں نے مجھے اور گُل زمان کو اسپانسر کیا ہے۔ وہاں ضرور مجھ سے اصرار ہوگا کہ میں گُل زمان سے شادی کرلوں۔ میری زندگی کا یہ تضاد دیکھئے میں اپنے اندر کتنی نفرتیں اور حقارتیں سمیٹ رکھنے کے باوجود امریکہ جارہی ہوں، اتنا کہنے کے بعد شہناز نے میز پر رکھے اپنے ہاتھوں کو اس طرح سمیٹا جیسے اب بانہوں میں چہرہ چھپائے رونے لگے گی،مگر وہ ان ہاتھوں پر زور دے کر اٹھی۔ میری طرف دیکھ کر تھوڑا سا مسکرائی اور بھیگی آنکھوں کے ساتھ پہلی مرتبہ مصافحے کے لئے ہاتھ اُٹھایا اور آہستہ سے کہا، ”خدا حافظ۔“
ایک کہانی ختم ہوئی۔ ایک عہد، ایک زمانہ ختم ہوا۔
تیسری کہانی، ”ڈر۔۔ ڈرو۔۔ ڈرون“ ہے۔ میرا خیال ہے اس موضوع پر افسانہ نہیں لکھا گیا۔ دراصل یہ افسانہ ڈرون حملوں کے بارے میں نہیں ہے۔ ان حملوں کے بعد جب زمانے بیت جاتے ہیں اور آبادیاں کھنڈرات میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ نئی نسلیں ان کھنڈرات کی سیر کرتی ہیں، اپنے ورثے اور اپنی تہذیب کو تلاش کرتی ہیں۔
”سنو حسن! تم یہ بات جانتے ہو کہ یہاں پاکستان میں آج کل پھر ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلے میری بات سُن لو۔ قاتل یہ نہیں دیکھتے کہ ان کی زد پر کون ہے۔ بس ایک روبوٹ کی طرح حکم بجالانا ہوتا ہے۔ میرے لئے اور تمہارے لئے ایک بری خبر یہ ہے ۔ آج دوپہر کو جب چھوٹے ماموں اپنا دواخانہ بند کررہے تھے۔ کسی نے غیر سمجھ کر گولی مار دی۔ ہیلو حسن تم سُن رہے ہو نا۔“ (ایک ہی مٹی کے لوگ)
کراچی ایک خوب صورت شہر تھا۔ اب روزانہ وہاں لاشیں اٹھائی جاتی ہیں اور قاتل فرار ہوجاتے ہیں، کبھی پکڑے نہیں جاتے۔ وہاں موت بہت آسان ہوگئی ہے۔ لوگ خوف کے عادی ہوگئے ہیں۔
”چراغ بدست“ اور ”سہارا“ بھی پاکستان، افغانستان، امریکہ اور جہاد کا افسانہ ہے اور دوسرے افسانوں میں ہمارے سماج کی تلخیاں ہیں۔ ان افسانوں کو پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ دُنیا میں دکھوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہر شخص خوف زدہ رہتا ہے اور اپنی موت کا انتظار کرتا ہے۔
محبت اور الفت کی کہانیاں کہیں گم ہوگئیں ہیں۔ اب تو سُرخ کاغذ پر بارود کی بُو ہے۔ بچے فروخت کئے جارہے ہیں۔ عورتوں کو قتل کیا جارہا ہے۔ یاخدا، رزق کی ایسی بھیانک صورت پہلے کبھی نہ تھی۔ زندگی ایسی مشکل کبھی نہ تھی۔ زندگی میں آسانیاں مانگنے والے افسانے نگار آج زندہ ہوتے تو دیکھتے، زندگی کتنی مشکل ہے؟
سلطان جمیل نسیم افسانہ لکھتے لکھتے بوڑھے ہوگئے۔ انہوں نے اپنی زندگی کے بہترین سال افسانے کو دیے۔ لیکن آج وہ جس انداز کا افسانہ لکھ رہے ہیں۔ ایسی تلخی تو میں نے کبھی ان کے افسانوں میں نہیں دیکھی۔ ہمارا سماج جس سمت جارہا ہے اس کو ہمارے لفظ نہیں روک سکتے کیونکہ اس طوفان کی رفتار ہماری تحریروں سے کہیں زیادہ تیز ہے۔ کسی بڑے قائد اور رہنما کی ضرورت ہے لیکن وہ نظر نہیں آتا۔ کاﺅس جی کہا کرتے تھے۔ ”سالا سب چور ہے“ شاید یہی سچائی ہے۔
سلطان جمیل نسیم کے افسانے پڑھ کر مجھے یوں لگا کہ یہ افسانے نہیں ہمارے سماج کے نثری نوحے ہیں۔ ہمارے پاس ماتم کے سوا کچھ نہیںہے۔ ”ایک ہی مٹی کے لوگ“ کے تمام افسانے حضرت صبا اکبرآبادی کے ان دو اشعار کی مختلف تصویریں ہیں اور یہ اشعار ابتدائی صفحات پر ان افسانوں کے رخ کی نشاندہی کرتے ہیں:
ہر سال یہ سمجھ کے گزارا ہے اے صبا
یہ عشق کی صدی میں عداوت کا سال ہے
اور
نظر آتی نہیں تاریکی بھی
اور اب کتنا اندھیرا ہوگا
سلطان جمیل نسیم لکھتے ہیں۔ ”کیا باکمال لوگ ہیں یہ ”ایک ہی مٹی کے لوگ“ اور میری یہ کہانیاں ان ہی لوگوں کی خدمت میں محبت بھرا خراج ہیں۔ محبت جس کے بغیر ہم نامکمل اور زندگی بے رنگ ہے۔“

Related posts

Leave a Comment